فقہ کا لغوی معنی کسی شے کو جاننا ، اس کی معرفت اور اس کا فہم حاصل کرنا ہے شریعت کی اصطلاح میں علمِ فقہ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی جاتی ہے ۔ ’’ تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے ‘‘ علمِ فقہ کے ساتھ خصوصی دلچسپی رکھنے والے اور مسائل ِ شرعیہ کا حل تلاش کرنے والے ان جلیل القدر علماء کو فقہاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ امتِ مسلمہ میں بے شمار ایسی ہستیاں گذری ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں علمِ فقہ کے حصول اور اس کی خدمت کے لیے وقف کر دیں ۔ان میں سے مدینہ طیبہ کے سات فقہاء کوخاصی اہمیت حاصل ہے ۔ جنہیں فقہائے مدینہ اور فقہائے سبعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ذیل میں ان کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔ حضرت سعید بن المسیب رحمۃ اﷲ علیہ: آپ کی ولادت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے تیسرے سال ہوئی ۔آپ نے مختلف صحابہ کرام سے علم حاصل کیا جن میں سیدنا عثمان ، زید بن ثابت ، ام المؤمنین حضرت عائشہ ، سعد بن ابی وقاص ، ابو ہریرہ اور دیگر کئی صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین شامل ہیں ۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں : میں نے سعید بن مسیب سے بڑا حدیث کا واقف نہیں دیکھا ۔ آپ بلند اخلاق کے مالک اور صاحبِ زہد و تقوی ٰانسان تھے ۔ آپ کے متعلق ابنِ حبان لکھتے ہیں : ابنِ مسیب فقہ ، دین داری ، زہد و ورع ، عباد ت و ریاضت ، جملہ فضائل میں سادات تابعین میں سے تھے ۔ آپ کا وصال ولید کے عہد میں 94ہجری میں ہوا۔ عروہ بن زبیر رحمۃ اﷲ علیہ: آپ حضرت زبیر بن عوام رضی اﷲ عنہ کے فرزند ہیں جو عشرہ مبشرہ صحابہ میں سے تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام حضرت اسماء بنتِ ابی بکر ہے ۔ آپ کی ولادت 23ہجری میں ہوئی ۔ آپ تابعین میں حدیث اور مغازی کے بہت بڑے عالم تھے ۔ آپ نے اپنے والد،والدہ ، بھائی اور خالہ سے علمِ حدیث حاصل کیا ۔ سب سے زیادہ استفادہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے کیا ۔ اکابر صحابہ میں زید بن ثابت ، عبد اﷲ بن عباس ، عبد اﷲ بن عمر ، ابو ایوب انصاری رضوا ن اﷲ علیہم سے فیض یاب ہو ئے ۔ آپ کا وصال بھی 94 ہجری میں ہوا۔ قاسم بن محمد بن ابوبکر: حضرت قاسم بن محمد یتیم تھے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ان کی پرورش فرمائی آپ ایک طویل عرصہ ان کی صحبت میں رہے ۔ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے علاوہ آپ نے حدیث کا علم دیگر کئی اساتذہ سے بھی حاصل کیا ۔ جن میں حضرات ابنِ عمر ، ابنِ عباس ، اسماء بنتِ عمیس ، ابو ہریرہ، فاطمہ بن قیس رضوان اﷲ علیہم کے نام شامل ہیں۔ ابو نعیم اصفہانی فرماتے ہیں : قاسم بن محمد بن ابوبکر فقیہ ، پرہیز گار ، شفیق ، متواضع ، صدیق کے فرزند ، عمد ہ حسب والے ، غامض(مخفی) احکام کے بتلانے میں فائق اور اچھے اخلاق کی طرف سبقت کرنے والے تھے ۔تذکرہ نگاروں میں آپ کے سنِ وصال میں اختلاف پایاجاتا ہے ۔ بعض نے 102بعض نے 106اور بعض نے 107ہجری لکھا ہے ۔ خارجہ بن زید بن ثابت : آپ اپنے والد حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ کی طرح مسائلِ وراثت کے ماہر تھے ۔ آپ درویش منش انسان تھے ۔ مدینہ کے لوگ حضرت خارجہ بن زید اور حضرت طلحہ بن عبد اﷲ بن عوف کے پاس اپنے گھروں ، مال مویشی اور کھجوروں کے باغات کی تقسیم کے مسائل لاتے یہ دونوں ان مسائل میں لوگوں کی علمی رہنمائی فرماتے تھے ۔ اموی خلیفہ سلمان بن عبد الملک نے انہیں کچھ مال بھیجا تو انہوں نے اپنے پاس رکھنے کی بجائے اسے لوگوں میں بانٹ دیا ۔ آپ کا وصال 99ہجری میں ہوا ۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اﷲ علیہ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی تو آپ نے افسوس سے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: بخدا ! اسلام میں شگاف پڑ گیا ۔ عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ بن مسعو د : آپ کے دادا حضرت عتبہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ مشہور صحابی حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے بھائی تھے ۔ آپ کا تعلق بنوہذیل سے تھا آپ کا حافظہ بہت تیز تھا ۔ آپ خود فرماتے ہیں جب بھی میں نے حدیث سن کر یاد کرنا چاہی تو وہ یاد ہو جاتی ۔ حضرت عبیدا ﷲ صحابہ سے بہت محبت کرتے تھے کیونکہ دینِ اسلام نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد انہی کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچا تھا ۔ واقدی کہتے ہیں : عبیداﷲ ثقہ عالم اور فقیہ تھے ۔ کئی احادیث کے راوی ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے ۔ آ پ کا وصال 102 ہجری میں ہوا ۔ سلیمان بن یسار : آپ کی ولادت 34 ہجری میں ہوئی ۔آپ حضرت ام المؤمنین میمونہ رضی اﷲ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ آپ سے بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ آ پ نے امہات المؤمنین ، سیدہ عائشہ ، سیدہ امِ سلمہ اور سیدہ میمونہ کے علاوہ کئی جلیل القدر صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے احادیث روایت کی ہیں ۔ آپ عباد ت گذاراور پرہیز گار بھی تھے اور اکثر روزے سے رہا کرتے تھے ۔ آپ سے حدیثِ رسول سیکھنے والوں میں بڑے بڑے نام ہیں جن میں آپ کے بھائی عطابن یسار ، اور بکیر بن اشج شامل ہیں ۔ حضرت سلیمان بن یسار کو ثقہ اور حجت مانا جاتا تھا۔ آپ کا وصال 107ہجری میں ہوا ۔ ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام : آپ کا نام محمد اور کنیت ابو بکر تھی۔ آپ اکابر تابعین میں شمار ہو تے ہیں ۔ ان کا پورانام ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام المخزومی القرشی ہے ۔ ان کا لقب راہبِ قریش تھا ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے عہدِ خلافت میں پیدا ہوئے ۔ آپ کو احادیث پر بڑا عبور تھا۔ بہت سی احادیث زبانی یاد تھیں ۔ اسی بنا پر خلفاء آپ کے بڑے قدر دان تھے بالخصوص اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان آپ کا بڑا مداح تھا ۔ آپ کا وصال 94ہجری میں ہوا۔