شمال سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں اب کی بار یہاں تاخیر سے ضرور پہنچیں مگر اب سردی کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑنے پر تل چکی ہیں۔کم و بیش دو ہفتوں تک لاہور کے شہریوں نے سورج کی روشنی نہیں دیکھی، آج کچھ کچھ سورج اپنی روشنی دکھا رہا ہے وگرنہ گزشتہ دو ہفتوں سے درجہ حرارت تین سے چھ کے درمیان رہا۔ یکم جنوری کو لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرنا شروع کیا تو لاہور میں شدید سردی اور دھند کا راج تھا جبکہ کلرکہار پر ہم نے چمکتی ہوئی دھوپ دیکھی۔حیرت تو یہ ہوئی کہ لاہور کی نسبت راولپنڈی اسلام اباد کا موسم کم سرد تھا۔ جنوری میں ٹیکسلا اور کوئٹہ سے ہمارے ہاں مہمان آئے جتنے دن لاہور ان کا قیام رہا دھوپ نے دیدار نہیں کروایا ،جبکہ ٹیکسلا اور کوئٹہ جیسے سرد شہروں میں بھی روزانہ چمکتی ہوئی دھوپ نکلتی رہی۔جنوری کا دوسرا ہفتہ شروع ہے اور ہوائیں برفانی ہو چکی ہیں۔ سرما کے ان برفانی دنوں میں سرمائی چھٹیاں ختم ہونے کا اعلان ہوا اور چاروناچار بچوں کو اسکول جانا پڑا۔یہ ایشو ہر سال زیر بحث آتا ہے کہ سرما کی چھٹیاں دسمبر کی بجائے جنوری کے آغاز میں ہونی چاہیں۔ اس بار بھی 18 دسمبر سے بچوں کو چھٹیاں ہو گئی تھیں جبکہ 18 دسمبر تک سردی نے ہلکی پھلکی جھلک ہی دکھائی تھی۔ دسمبر کے وسط تک سردی کے تیور دھیمے دھیمے رہے۔محسوس ہوتا تھا موسموں کے شیڈول بدل چکے ہیں اس بار سردیاں روٹھ چکی ہیں۔ یہاں تک کہ لنڈا بازاروں میں گرم کپڑوں اور بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز پر سویٹر اور جیکٹوں کا کاروبار سب ٹھنڈا پڑا تھا کیونکہ سردی واقعتا یہاں آنا بھول گئی تھی۔اب صورتحال یہ تھی کہ سردیوں کی چھٹیاں ہیں اور سردی ہے نہیں بچے آدھی چھٹیاں گزار چکے تو سردی نے گویا دھاوا بول دیا۔ خیال یہ تھا کہ شاید برفانی سردی کے پیش نظر چھٹیاں بڑھ جائیں گی لیکن ساتھ ہی والدین کو یہ تشویش بھی تھی کہ بچوں کا مسلسل گھروں پر رہنا اور چھٹیاں مناتے چلے جانا دراصل ان کو ڈسپلن اور پڑھائی سے دور کر رہا ہے۔بہرحال مزید چھٹیاں ہونے کی افواہوں کے دوران سرکاری طور پر سکول کھلنے کا اعلان ہوا۔ بچوں کی چھٹیاں ختم کر کے سکول کے آغازکا اعلان کر دیا اچھا فیصلہ یہ ہے کہ سکولوں لگنے کا وقت بدل دیا ہے۔ میٹرک سے اگلی جماعتوں کے طالب علموں کے لیے سردی کے موسم میں باہر نکلنا اتنا مشکل نہیں ہوتا لیکن پہلی جماعتوں سے چھٹی ساتویں آٹھویں تک کے بچوں کے لیے موسم کافی سرد ہے۔ ابتدائی کلاسوں کے ننھے طالب علموں کے لیے موسم کی شدت سہارنا مشکل ہے سو پہلی تک کے بچوں کے لیے حکومت نے انیس جنوری تک چھٹیوں کا اعلان کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ چھٹیاں پرائمری تک کے بچوں کو دے دینی چاہیں تھیں کیونکہ پرائمری تک بچے چھوٹے ہوتے ہیں۔ سرد موسم میں ہسپتالوں میں نمونیا سے بیمار ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ سردی کی وجہ سے کھانسی، گلے کا انفیکشن ،نزلہ زکام کی بیماریاں عام ہیں۔ گرم بستروں سے اٹھ کر صبح سکول جانے والے بچوں کو سردی لگنے کا اندیشہ زیادہ ہے اور اس میں بھی غریب بچوں کا بیمار ہونے کا خطرہ زیادہ ہے کیونکہ کو گرم رکھنے کے لیے جن غذائی اچھا کی ضرورت ہوتی ہے وہ انہیں میسر نہیں۔کبھی صبح صبح اپنی گاڑیوں کے شیشوں کے پار دائیں بائیں فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے سرکاری سکولوں کے بچوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھیں، سفید اور نیلے یونی فارم پہنے ہوئے چھوٹی بچیاں اور خاکی پتلونیں اور سفید قمیضیں پہنے ہوئے غریب طالب علم غربت کی دلدل سے خود کو گھسیٹتے ہوئے علم حاصل کرنے کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں یہ منظر میرا دل پگھلا دیتا ہے۔ سردیوں میں بعض دفعہ ان کے پیروں میں جرابیں نہیں ہوتی ،اونچی اونچی پتلونوں کے ساتھ بغیر جرابوں کے گھسے ہوئے سینڈل ان کے صبح کے ناشتے کی کہانی بھی سنا رہے ہوتے ہیں کہ آج انہوں نے ناشتے میں کیا کھایا ہوگا۔ چھوٹی بچیوں کو دیکھتی ہوں کہ سردیوں میں بھی اپنے یونی فارم کے پتلے سفید دوپٹے سروں پہ لپیٹے ہوتے ہیں حالانکہ اتنی سردی میں ان کے لیے گرم سکاف ہونے چاہیں۔ غریب گھرانوں کے بچوں کے والدین نہ جانے کس طرح ان کے لیے یونی فارم اور کتابوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان غریب والدین کا اپنے گھمبیر معاشی مسائل کے باوجود بچوں کو سکول بھیجنا پاکستانی قوم پر احسان ہے۔ میں وزیراعلی پنجاب سے گزارش کروں گی کہ بچیوں کو سرکار کی طرف سے گرم سکارف جرابیں دینی چاہئیں اور بچوں کو گرم ٹوپیاں گرم جرابیں دینی چاہئیں۔ سرکاری سکولوں میں بچوں کو روز سرکار کی طرف سے ایک ابلا انڈا کھلانا چاہیے۔ ایک انڈے کی قیمت سردی بڑھنے کے ساتھ 40 روپے ہو چکی ہے جو غریب والدین اپنے بچوں کو نہیں کھلا سکتے۔ ریاست کے خزانے سے ان بچوں کی بنیادی غذائی اور شدید سرد موسم کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ سرکار نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ غریب گھروں کے بچے صبح ناشتے میں کیا کھا کر نکلتے ہوں گے؟ والدین سمیت چھ سات افراد پر مشتمل گھرانہ ناشتے میں انڈے کھانا افورڈ نہیں کر سکتا۔چائے کے ساتھ روٹی ،پراٹھا یا کچھ اسی قسم کا ناشتہ شدید سرد موسم کی غذائی ضرورت پوری نہیں کرسکتا ۔ مجھے محمد علی کی بات نہیں بھولتی جسے میں نے اپنے کالم کا موضوع بنایا تھا وہ پہلی جماعت کا طالب علم ہے اس سال دوسری میں جائے گا۔ وہ ہر روز انڈا کھانا چاہتا ہے اور اس کی مزدور ماں اس کے لیے پیسے بچا کے رکھتی ہے کیونکہ اگر اس کو انڈا نہیں ملتا تو وہ اس پہ لڑائی کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ کیا وہ ایک انڈا بھی نہیں کھا سکتا۔یہی سوال میں انتظامی، عدالتی اور اسٹیبلشمنٹ کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ارباب اختیار سے کرتی ہوں کہ ملک کی معاشی پالیسیاں بناتے ہوئے کبھی آپ نے اس ملک کے غریب طالب علموں کے مسائل پر بھی سوچا ہے۔ایک غریب بچے کا یہ حق ہے اس شدید سردی کے موسم میں ایک انڈا روازنہ کھا سکے اور یخ بستہ موسم میں سکول جاتے ہوئے اس نے مناسب گرم کپڑے پہنے ہوں پاؤں میں جرابیں اور سر پر گرم ٹوپی ہو۔بس گرم جرابوں ،ٹوپی اور روزانہ ایک انڈے کا سوال ہے بابا !!