ترکی اور شام میں 6 فروری کو آنے والے زلزلے میں 11 فروری 2023ء تک 24000 کے قریب ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ زلزلہ نے قیامت کا منظر دکھا دیا ہے۔ یہ اس صدی میں ترکی میں آنے والہ سب سے شدید زلزلہ ہے۔ ریکٹر سکیل پر زلزلہ کی شدت سات اعشاریہ 8 ریکارڈ کئی گئی، یاد رہے 2005ء میں پاکستان میں آنے والے زلزلہ کی شدت سات اعشاریہ پانچ تھی۔ جس میں صرف بالا کوٹ میں 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ترکی میں آنے والے زلزلہ میں ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ترکی کی حکومت نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے ملک کے 10 صوبوں میں ایمر جنسی کا نفاد کر دیا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی قیادت کے لئے یہ ایک بڑا امتحان ہے۔ طیب اردگان نے اپنی تمام مصروفیت کو بالا ئے طاق رکھ کے زلزلہ زدگان کی امداد کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس وقت جب ترکی پر قیامت برپا ہو چکی ہے ہمارے حکمران اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ ترکی سے جو بھیک مانگنے کے لئے تیار تھے ان کی تیاریاں دھری رہ گئی ہیں۔ ترکی میں جو زلزلہ آیا ہے امید ہے ترکی کی قیادت بہت جلد اس امتحان میں سرو خرو ہو گئی۔ مگر اپنے وطن کا ہم کیا کریں جہاں کوئی زلزلہ بھی نہیں آیا اور ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ وزیر خزانہ نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی نوید سنا دی ہے۔ اس وقت ملک میں ڈیزل اور پٹرول نایاب ہے لوگ اس افواہ پر قائم ہیں کہ تیل کی قیمت میں کافی اضافہ ہونے والہ ہے جبکہ ملک کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ ہو گا جو دو اقساط میں ہو گا۔ پہلے پانچ روپے تیل کی قیمت بڑھے گی اور پھر اپریل میں تیل کی قیمت پانچ روپے بڑھے گی۔ منی بجٹ کی آمد آمد ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے 18 فی صد تک کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ کا دعوی ہے کہ بہت جلد گیس اور بجلی کے گردشی قرضوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سگریٹ پر ٹیکس کی خبر کی وجہ سے سگریٹ نایاب ہونے کو ہیں۔ ان تمام خوش خبریوں کی ساتھ وزیر خزانہ ایک اور بات کی نوید بھی سناتے ہیں کہ ان اقدامات سے عام آدمی پر اسکا اثر نہیں ہو گا۔ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ عام آدمی کون ہے جس پر ان اقدامات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ وہ گورنر کی ساتھ مشاورت کر کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں اور الیکشن اسمبلی کے ٹوٹنے کے بعد 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں۔ اب یہ حکومت پر ہے کہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ اپیل کرتی ہے۔ اس وقت حکومتی ادارے الیکشن کے التوا کے لئے مختلف حیلے بہانے کر رہے ہیں۔ کبھی وزارت خزانہ کہتی ہے کہ اس کے پاس الیکشن کمیشن کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں اور کبھی پولیس والے کہتے ہیں کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال درست نہیں ہے اور الیکشن نہیں ہو سکتے۔ وزارت دفاع کہتی ہے کہ وہ رینجر اور فوج کو الیکشن ڈیوٹی کے لئے نہیں بھیج سکتے۔ مختلف ممالک میں بد ترین ماحول میں بھی الیکشن ہو ئے ہیں۔ جن ممالک میں الیکشن کو التوی میں ڈالا گیا ان کی بد ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔یمن میں الیکشن نہیں ہوئے اور پھر وہاں خانہ جنگی ہوئی۔ لبنان میں الیکشن کو التوی میں ڈالا گیا اور وہاں کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ ملک جنگ بھی لڑتے ہیں اور الیکشن بھی کرواتے ہیں۔ برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کیا ورلڈ وار 1 اور ورلڈ وار دوم میں برطانیہ میں الیکشن کو ملتوی کیا گیا۔ بروقت الیکشن ہی ہمارے ملک میں سیاسی اور اقتصادی بحران کو ختم کر سکتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے ملک کی معاشی بدحالی کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ترکی میں جو زلزلہ آیا ہے پاکستان پر اس کے اثرات سامنے آرہے ہیں اس وقت پاکستان مسلم لیگ کی قیادت میں زلزلہ کی کیفیت ہے۔ شاہد خاقان عباسی اپنی قیادت سے خفا ہیں اور اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان مسلم لیگ کے سب سے قد آور لیڈر سردار مہتاب عباسی سے پاکستان مسلم لیگ نواز سے استعفی دے دیا ہے۔ سردار مہتاب عباسی 1997ء میں خیبر پختونخوا میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے وزیر اعلی تھے۔سردار مہتاب عباسی مسلم لیگ نواز کی وفادر لیڈروں میں سے ایک ہیں ان کے استعفی کے بعد کے پی کے میں صرف امیر مقام رہ جاتے ہیں اور انکی وفاداری کتنی جلد بدلتی ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیپٹن صفدر کے ایک بیان نے بھی پاکستان کی سیاست میں بھونچال برپا کر دیا ہے جب انہوں نے داتا دربار میں بیان دیا کی پاکستان میں الیکشن 2025ء سے پہلے نہیں ہونگے۔ اس بیاں کے بعد لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی الیکشن کو 2025ء تک موخر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس بیان کا پس منظر کیا ہے۔ پاکستان کے عظیم ڈرامہ نگار ، شاعر اور استاد امجد اسلام امجد کا انتقال ہو گیا۔ مرحوم نے پاکستان میں ڈرامہ نگاری کے فن کو عروج بخشا ان کا شاہکار ڈرامہ وارث پی ٹی وی کی تاریخ کا سب سے مقبول ڈرامہ تھا۔مرحوم کی شاعری بھی بہت مقبول تھی۔ انکا بہت مشہور شعر ہے کہاںآکے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جونہیں ملا اسے بھول جا انکی ساری زندگی اس شعر کا مفہوم تھی کبھی رنجیدہ نہیں ہوئے ہمیشہ شکر کیا اور خوش رہے۔ انکو ان کی ادبی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت چودہ ایوارڈ ملے۔ لیکن جو ایوارڈ ان کو عوام نہیں دیا اسکی باز گشت صدیوں تک رہے گی۔ وہ عوام کے ڈرامہ نگار تھے۔انہوں نے عوامی مسائل پر ڈرامہ لکھا۔اور عوام نے ان کو بہت پزیرائی بخشی۔ (نوٹ: میرے گلے کی سرجری ہے جس کی وجہ سے آنے والے تین ہفتے میرا کالم شائع نہیں ہو گا۔ قارئیں سے دعاوں کی طلبگارہوں)