وزیر اعظم عمران خان کتنا ہی درد مند دل کیوں نہ رکھتے ہوں اور غریب عوام کے لئے ان کی محبت کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو‘ان کے عملی اقدامات نے غریب عوام کے لئے جینا مشکل کر دیا ہے۔وزیر اعظم کے نابغہ روزگار مشیران اور وزراء ایسی ایسی دور کی کوڑی لا رہے ہیں کہ پاکستان کے عام لوگ حیران و پریشان ہیں۔ان کے بعض نائبین تو باقاعدہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں اور اپنی دانست میں وزیر اعظم کا حق نمک ادا کر رہے ہیں۔گورنر سٹیٹ بنک نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ نکتہ آفرینی کی ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کا فائدہ ہو رہا ہے اور ان کے عزیز و اقارب کو پاکستان میں زیادہ روپے مل رہے ہیں۔ان روپوں کی قوت خرید کیا ہے اس سے گورنر سٹیٹ بنک کو کوئی سروکار نہیں۔ایک وزیر باتدبیر نے فرمایا ہے کہ اشیائے ضرورت مہنگی ہونے سے کم از کم ان لوگوں کا تو فائدہ ہو رہا ہے جو یہ اشیا مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔آخر وہ بھی تو پاکستانی ہیں۔اس منطق سے تو ڈاکہ مارنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے کیونکہ اس نیک عمل سے کچھ پاکستانی تو ضرور خوشحال ہو جائیں گے۔ حکومت کی کیفیت ایسی ہے کہ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ایسے لگتا ہے کہ حکومت آٹو گیئر میں چل رہی ہے۔کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ملک میں جو بھی ہو جائے اسی پر صبر شکر کیا جائے اور وزراء کا فرض یہ ہے کہ وہ ہونے والے ہر واقعہ کے مثبت پہلو عوام کے سامنے بیان کریں۔اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں ساڑھے پانچ روپے فی لٹر اضافہ تجویز کیا تھا اور عام طور پر وزیر اعظم اس سے نصف یا اس سے کم کی منظوری دیتے تھے اور وزیر اور مشیر یہ بیان دیتے تھے کہ اوگرا نے تو بہت زیادہ اضافہ تجویز کیا تھا لیکن عوام کا درد رکھنے والے وزیر اعظم نے صرف چند روپے کا اضافہ منظور کیا ہے۔اس دفعہ وزیر اعظم نے ساڑھے پانچ روپے تجویز کردہ اضافے کی بجائے پورے ساڑھے دس روپے اضافہ کے احکامات صادر کر دیے۔ابھی تک کسی وزیر نے اس منطق پہ روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔اس کے ساتھ ہی خوردنی تیل کی قیمت میں تقریباً ایک سو روپیہ فی لٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے اور یوٹیلیٹی سٹورز میں متعدد اشیاء کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔پوری کابینہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں اب بھی اشیائے صرف کی قیمتیں نسبتاً کم ہیں۔پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز وزیر اعظم بننے سے پہلے عمران خان کے بیانات عوام کو دکھا رہے ہیں جب وزیر اعظم ڈالر کی قیمت بڑھنے اور پٹرول کی قیمت بڑھنے کو حکمرانوں کی چور بازاری سے جوڑا کرتے تھے۔آج بھی وزیر اعظم اور ان کی ٹیم یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ روپے کی قیمت گرنے اور اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھنے کی ذمہ دار گزشتہ حکومتیں ہیں۔عوام کے لئے یہ ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ موجودہ حکومت کا تین چوتھائی عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہر برائی کی ذمہ دار گزشتہ حکومتیں ہیں ۔عمران خان کی حکومت احتساب کے بلند بانگ نعرے لگانے کے باوجود گزشتہ حکمرانوں سے ایک پائی بھی واپس نہیں لے سکی، احتساب بیورو نے جو چند سو ارب روپے اکٹھے کئے ہیں، وہ ہائوسنگ سوسائٹیوں اور عام تاجروں سے کئے ہیں جس کا ذکر وہ بڑے فخر سے کرتے ہیں۔واضح ثبوتوں کے باوجود کسی ایک سیاستدان کو بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔شہباز شریف کے خلاف ٹی وی کی حد تک ثبوت موجود ہیں۔جس رفتار سے گواہیاں ہو رہی ہیں‘تقریباً پچیس سال درکار ہوں گے کیونکہ ایک سو سے زائدگواہ پیش ہونے ہیں۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ حکومت خورشید شاہ کو دو سال قید میں رکھنے کے باوجود ریفرنس تک دائر نہیں کر سکی۔اس سے بڑی نالائقی کیا ہو گی کہ خورشید شاہ نے تقریباً یہ سارا عرصہ ہسپتال میں گزارا ہے۔اس کا سادہ الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود حزب اختلاف حکومت سے زیادہ موثر ہے اور حکومت کی مشینری حزب اختلاف کے احکامات ہی بجا لاتی ہے۔اب پی ڈی ایم نے بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کو حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اپنی کارکردگی سے انہیں عوام کا سامنا کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔انہیں عثمان بزدار اور پنجاب حکومت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ان کے حسن کارکردگی کی وجہ سے ن لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئی۔اگر پنجاب میں کوئی موثر اور فعال سیاستدان وزیر اعلیٰ ہوتا تو اب تک لوگ ن لیگ کو بھول چکے ہوتے۔عمران خان کی بھی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ن لیگ‘پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام جیسی اپوزیشن ملی ہے جن کی کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہیں اور ان کی جائیدادوں کی صورت میں عوام کے سامنے ہیں یہ وہ حزب اختلاف ہے جو صرف بہانے کی تلاش میں رہتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف جلسے جلوس کرے۔وہ متبادل حکمت عملی دینے سے قاصر ہیں ۔آج تک حزب اختلاف کے کسی لیڈر نے مہنگائی کے خلاف کوئی حکمت عملی عوام کے سامنے نہیں رکھی وہ صرف حکومت پہ نکتہ چینی کر سکتے ہیں لیکن مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کر سکتے۔اگر کوئی ذی شعور اور دیانت دار اپوزیشن میدان میں ہوتی تو پی ٹی آئی کی حکومت مدتوں پہلے فارغ ہو جاتی۔یہاں تو حالت یہ ہے کہ مریم نواز نے اپنے ماضی میں بولے ہوئے اعلانیہ جھوٹے بیانات‘اپنے متکبرانہ روشے خاندانی اختلاف اور عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود حکومت کو آگے لگایا ہوا ہے۔حزب اختلاف کا کام آسان کرنے کے لئے اب حکومت نے ایک کالعدم جماعت کو بھی بلاوجہ مظاہرے کرنے پر مجبور کر دیا ہے حکومت کی خوبی قسمت کہ اس جماعت کے شعلہ بیان لیڈر راہی ملک عدم ہوئے لیکن حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ان کے وارث کو ایک بڑا لیڈر بنا کر دم لے۔حکومت آ بیل مجھے مار کی پالیسی پر گامزن ہے۔ امریکہ جیسی عالمی طاقت کو Absolutely notکہنا حکومت کی دلیرانہ پالیسی ہو سکتی ہے لیکن اس کے ردعمل سے نبٹنے کے لئے حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔امریکی ناظم الامور بہت فعال نظر آتی ہیں ۔پاکستان کے لئے سفیر نامزد ہونے والے امریکی سفارت کار ڈونلڈ آرمن بلوم اس خطے میں سفارت کاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔وہ افغانستان میں قونصلر برائے سیاسی امور رہ چکے ہیں۔لیبیا میں بھی ناظم الامور کے طور پر خدمات دے چکے ہیں۔مقبوضہ بیت المقدس میں بھی وہ قونصل جنرل تھے۔عراق میں بھی وہ بین الاقوامی فورس کے سیاسی قونصلر تھے۔ان کے پروفائل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس کس شعبے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ہماری موجودہ پالیسی کے تناظر میں دفتر خارجہ کے لئے بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لئے زیادہ سنجیدگی ایک واضح حکمت عملی اور شبانہ روز محنت کی ضرورت اپنے لئے اندرونی مسائل پیدا کرنے اور غیر ضروری نعرے مارنے سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔