مکرمی!آپ ہوٹل میں جاتے ہیں، کسی دکان پر یا مکینک کے پاس جاتے ہیں تو، وہاں کام کرتے کم عمر بچوں کو آواز دینے کیلئے ’’چھوٹے‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں، یا کسی کو پکارتے سنتے ہیں ۔ کبھی سوچا ، یہ ’’چھوٹے‘‘ کا لفظ ان کے دل پر کیسے نشتر چبھوتا ہوگا ؟ ذرا ایک لمحے کیلئے اس بچے کی جگہ خود کو یا اپنے بچے کو رکھ کر سوچیں اور رب کا شکر کیجئے کہ آپ کی حیثیت اس ’’چھوٹے‘‘ سے بہتر ہے۔ سوچئے کہ اگر آپ کے بچے کو کوئی ’’اوئے چھوٹے‘‘ کہہ کر بلائے تو کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ ۔ اسی طرح یہ بھی کسی کے بچے ہیں … یہ جو چھوٹے ہوتے ہیں ، درحقیقت یہ اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں … بیمار باپ ، بیوہ ماں ، یتیم بہن بھائیوں کا وسیلہ اور سہارا ہوتے ہیں ۔ یہ ہم سے زیادہ محنتی ہوتے ہیں ۔ شام کو جب کچھ کما کر گھر لے جاتے ہیں تو ان کے منتظر گھر والوں کو دو لقمے نصیب ہو تے ہیں۔ اس ’’چھوٹے‘‘ کی بھی عزت نفس ہوتی ہے ، ان کا بھی جی چاہتا ہے کہ انہیں نام سے پکارا جائے ۔ آپ ان کا نام نہیں جانتے تو ’’چھوٹے‘‘ کے ساتھ ایک لفظ کااضافہ کر لیجئے ۔ انہیں چھوٹے بھائی ، یا بیٹا کہہ کر آواز دیجئے … تاکہ وہ بھی معاشرے میں وقار کے ساتھ جی سکیں ۔ (محمد نورالہدیٰ)