نیا پاکستان بناتے بناتے تحریک انصاف کی قیادت نے نیا امریکہ دریافت کر لیا ہے۔ کولمبس پٹواری کو،کوئی جا کر خبر کرے اس کا کھیل تمام ہوا۔ یہ وہ امریکہ نہیں رہا جس کے نوحے ہاورڈزن، چامسکی اور ولیم بلم نے لکھے تھے، یہ اب نیا اور ڈیجیٹل امریکہ ہے، جس کی انسان دوستی دیکھ کر امریکہ کے سارے گوروں اور کالوں کا ' نچنے نوں دل کردا ' ہے۔ کون کہتا ہے نوے دن میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ قیادت ایماندار ہو تو اس کی دیانتداری اور روحونیات کے اعجاز سے سات سمندر پار ایک سپر پاور کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ امریکہ ہی کو دیکھ لیجیے، ابھی چند مہینے پہلے تک امریکہ ایک طاغوت تھا اور نونہال رجز پڑھتے پھرتے تھے: ایبسولوٹلی ناٹ، ہم کوئی تمہارے غلام ہیں جو تم کہو ہم وہی کریں۔ آج وہی امریکہ ہے اور وہی نونہال ہیں مگر وہ رجز نہیں پڑھ رہے۔ اب وہ اسی امریکہ کے حضور التجائیں لے کر دست بستہ کھڑے کہ پیارے آقا ہمارے ملک میں حقوق انسانی پامال ہو رہے ہیں، اس لیے مداخلت فرما کر بندہ ہائے ناچیز کو ممنون فرمائیں۔ کل کا امریکہ طاغوت تھا۔ وہ پاکستان کی منتخب حکومت کے خلاف سائفر بھیجتا تھا اور سازشیں کرتا تھا۔ اس کی سازشیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ سارے قائدین انقلاب مل جل کر حقیقی آزادی کے لیے تحریک چلانا پڑی تھی۔ اس تحریک کی برکتوں سے راتوں رات امریکہ کی ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ وہ طاغوت نہ رہا،میٹھی چھاؤں کی طرح مہربان ہو گیا۔ جو کل تک واشنگٹن کو للکارے مارتے تھے:ہم کیا تمہارے غلام ہیں،وہ کاغذ کے رستم اب ایجنٹ کے طور پر رجسٹر ہو کر اسی واشنگٹن کے حضور منمناتے ہیں کہ سائل عرض گزار ہے۔ یہ سائفر والا سازشی امریکہ جس نے مقامی ایجنٹوں سے مل کر ایک مہربان حکومت کا خاتمہ کیا تھا، اچانک اتنا بدل کیسے گیا؟ جاہلوں کا خیال ہے کہ قافلہ انقلاب نے یو ٹرن لے لیا لیکن چشم بصیرت جن کی وا ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اب کولمبس پٹواری کا پرانا امریکہ نہیں رہا، یہ کپتان کا نیا امریکہ ہے۔ پرانا امریکہ تو ہم جانتے ہیں کہ ظلم و وحشت کا علم بردار تھا۔ اس امریکہ نے ڈرون حملوں میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا تو خود عمران خاں صاحب نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ یہ ساری کارروائیاں پرانے امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے وضع کردہ Shock and awe کے تصور کے تحت کی جا رہی تھیں۔ یہ امریکہ کی پوسٹ کولڈ وار ملٹری ڈاکٹرین کا بنیادی اصول تھا۔ اس حکمت عملی میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین سب نظر انداز کر دیے جاتے تھے۔ صدام حسین کو اگر عین عید کے روز پھانسی دی گئی تھی تو یہ کسی عدالتی فیصلے کی تکمیل نہیں ہو رہی تھی، یہ Shock and awe کے تصور پر عمل ہو رہا تھا۔ پرانا امریکہ کسی قانون ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اس کے سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچی سن نے بڑے واضح انداز میں اس رویے کی شرح بیان کر دی تھی کہ '' امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے''۔ موصوف نے ایک موقع پر کہا کہ '' انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں، مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ماہرین کیا کہتے ہیں''۔ پرانے امریکہ کے بارے میں امور خارجہ کے ماہر امریکی دانشور، کلنگ ہوپس کے مصنف اور امریکی صحافی ولیم بلم نے لکھا تھا: ''بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے، معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم، بے شرم اور ڈھیٹ ہوں'' پرانے امریکہ کے نزدیک حقوق انسانی نام کی کسی چیز کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے سات آرٹیکلز خود امریکہ نے لکھے تھے جن میں سے تین خود صدر ریگن نے تجویز کیے تھے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اس کی توثیق نہیں کی تھی۔ کیونکہ پرانا امریکہ حقوق انسانی کے تصورات پر خود عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ پرانے امریکہ کا حال یہ تھا کہ اس کی ففتھ سٹرائکر برگیڈ کی تھرڈ پلاٹون کے ایک فوجی جرمی مارلوک نے ایک پندرہ سالہ افغان لڑکے گل مدین کو قتل کر کے اس کی انگلی کاٹ کر یاد گار کے طور پر محفوظ کر لی ا ور یہ خبر دنیا بھر میں شائع ہونے کے باوجود امریکہ نے اس اہلکار کو کوئی سزا نہ دی۔ پرانے امریکہ کا حال یہ تھا کہ ایک جاپانی سپاہی کے بازو کی ہڈی کاٹ کر لیٹر اوپنر بنا کر امریکی صدر روز ویلٹ کو تحفے میں دیا گیا تھا اور اس نے قبول کر لیا تھا۔ پرانے امریکہ کا عالم یہ تھا کہ امریکی صدارتی امیدوار جان مک کین کے مشیر اور ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نائل گرفوسن نے لکھا تھا کہ جاپانی دشمنوں کے سر کاٹ کر ان کی کھوپڑی کو ابال کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اور ان میں شراب پی جاتی تھی۔ امریکی شاعر ونفیلڈ ٹاؤنلے سکاٹ جس اخبار میں ملازمت کرتے تھے وہاں دیوار پر ایک جاپانی کے سر کی ٹرافی لٹکی ہوتی تھی۔ انہوں نے اس پر ایک نظم بھی لکھی تھی: دی یو ایس سولجر ود جیپنیز سکل۔ پرانا امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے دو ہنستے بستے شہر ایٹم بم مار کر اجاڑ دیے۔ پرانے امریکہ کی بے رحمی کا عالم یہ تھا کہ امریکی ٹی وی پروگرام 60 منٹ میں میڈیلین البرائٹ سے سوال کیا گیا کہ عراق پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے عراق میں پانچ لاکھ بچے جاں بحق ہو چکے ہیں کیا آپ سمجھتی ہیں اتنی بھاری قیمت ادا کی جانی چاہیے؟ انہوں نے بے نیازی سے جواب دیا ہاں اتنی قیمت دینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن یہ پرانے امریکہ کی باتیں ہیں۔ جب اس پرانے امریکہ نے پاکستان کو سائفر بھیجا اور سازش کر کے عمران خان صاحب کو حکومت سے محروم کیا تو انہوں نے للکارا: ہم کوئی تمہارے غلام ہیں۔ انہوں نے ایبسولیوٹلی ناٹ کا نعرہ لگایا اور حقیقی آزادی کے لیے میدان میں اتر آئے۔ یہ نگاہ مرد مومن تھی، تقدیریں بدل گئیں۔ یہ ذوق یقیں تھا، زنجیریں کٹ گئیں۔ پرانا امریکہ تحلیل ہو گیا۔ سفاک امریکہ قصہ ماضی ہو گیا۔ راتوں رات ایک ایسا مہرباں، نیک صفت، غریب پرور، نہ سائفر بھیجنے والا ، نہ سازش کرنے والا، غریبوں کا ہمدرد، درد دل رکھنے والا، حقوق انسانی کا علم بردار ایک ایسا امریکہ وجود میں آ گیا کہ اب اس کے حضور عرضیاں پیش کی جا رہی ہیں کہ پاکستان پر ذرا دباؤ ڈالے، یہاں حقوق انسانی بہت پامال ہو رہے ہیں۔ یہ یو ٹرن نہیں ہے۔ یہ مرد قلندر کی نگاہ کی تاثیر ہے۔ کپتان نہیں بدلا،ا مریکہ بدل گیا ہے۔ یہ نیا امریکہ ہے۔ یہ کولمبس یا جارج واشنگٹن کا نہیں، یہ کپتان کا امریکہ ہے۔ اوئے کولمبس! اوئے جارج واشنگٹن!