مکرمی ! دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 12 جون کو محنت کش بچوں کا عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگر دن منانے کے ساتھ ساتھ ان پھول جیسے بچوں سے مشقت کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ محکمہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو حکام کا کہنا ہے کہ والدین خود کمسن بچوں کو سڑکوں، بازاروں اور فیکٹریوں میں مزدوری کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں، جہاں حفظان صحت کے اصولوں سے آشنا نہ ہونے اور فیکٹریوں ، کارخانوں کے شور و دھوئیں، گندے پانی کے فضلات کی وجہ سے مزدوری کرنے والے 70 فیصد سے زائد بچے ہپاٹائٹس اے، بی اور سی جیسے وائرس اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں ، ان کی بہترین تربیت و نگہداشت پر جس قدر زیادہ توجہ دی جائے ، قوموں کی ترقی کے امکانات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں ۔ بلاشبہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری بن چکا ہے لیکن یہ بھی جائز نہیں ایسے موقع پر معاشرہ کوئی کردار ہی ادا نہ کرے ، ہمارا مذہب تو اپنے ہمسا ئیوں چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم دیتا ہے اور رشتے داروں کے حقوق تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اگر ہمسائیوں، رشتے داروں یا جاننے والوں میں کوئی بے سہارا بچہ یا خاندان ہے تو اسکی کفالت کرنا صاحب حیثیت لوگوں خصوصاً رشتے داروں اور ہمسائیوں کا فرض ہے ۔ معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے بجائے ان کی تعلیم ،صحت اور خوراک کیلئے ان کے والدین کو سپورٹ کیا جائے ۔ (رانا اعجاز حسین‘ ملتان)