یہ لگ بھگ سات برس پرانی بات ہے، مجھے کراچی میں ایک ایسی منقسم کشمیری فیملی کی تلاش تھی، جس کے کچھ افراد کراچی میں اور کچھ مقبوضہ کشمیرمیں آباد ہوں ان دنوں میں ایک نیوز چینل کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ تھا اور مجھے یہ کام دفتر کی طرف سے تفویض ہوا تھا کہ اس منقسم فیملی کے جذبات احساسات پر ایک رپورٹ تیار کرنی ہے کراچی میں کشمیری خاندان آباد تو ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے راولپنڈی ، اسلام آباد یا لاہور میں ہیں اس لئے مجھے کسی ایسی فیملی تک پہنچنے میں خاصی مشکل ہو رہی تھی تلاش کرتے کرتے برادر عبداللہ شاہ مظہر کی مدد سے ان کے بھائی تک پہنچا ان کی اہلیہ معروف عالم دین مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃاللہ علیہ کے بھتیجے کی صاحبزادی ہیں ان کے توسط سے انکے میکے کا فون نمبر لیا اوروقت طے کرکے نیو ناظم آباد کے قریب ایک سفیدپوش کشمیری فیملی کے گھر پہنچا جہاں محبت و عشق کے نئے معنی میرا انتظار کرر ہے تھے۔ اس فیملی کے تایا پھوپھی اور دیگر رشتہ دار خونیں لکیر کے اس پار تھے گفتگو کا آغاز ہوا میں نے کیمرا مین نے کہہ رکھا تھا کہ اس شوٹ میں سارا کمال اسی کا ہوگا آنکھوں کی نمی ، چہرے کے تاثرات اور رندھی ہوئی آواز کیمرے میں محفوظ کرنے کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا ، کیمرا مین نے کیمرا ٹرائی پوٹ کی تین ٹانگوں پر رکھ کر سیٹ کیا اور مجھے اوکے کا اشارہ دے دیا ،اس فیملی کی طرف سے ایک اسکول ٹیچر پراعتماد لہجے میں ہم سے بات کرنے لگی، گفتگو کا آغاز ہوا میں نے عرض کیا کہ عید تہوار پر اپنوں کی یاد تو بہت آتی ہوگی دوسری جانب اس باحجاب لڑکی نے ٹھنڈی سانس بھری اثبات میں سرہلایا اور پھر اغیار کے قبضے میں اپنی سرزمین کے اپنوں کی باتیں ہونے لگیں وہ کہنے لگی میرا مقبوضہ کشمیر جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے ان دنوں بس سروس چلتی تھی مختصر سا سفر تھا جس کا اختتام محبتوں کی ان شدتوں پر ہوتا جسے لکھا جاسکتا ہے نہ بتایا جاسکتا ہے۔ دادا جان انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت کی وجہ سے وہاں آباد ہمارے رشتہ داروں کو ویسے ہی بڑی تعظیم دی جاتی ہے،ہماری آنے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح علاقے میں پھیل گئی،ہمارے میزبان کا آنگن لوگوں سے بھر گیا، وہ پاکستان سے آئے مہمانوں سے ملنے کو بے تاب تھے وہ ہم سے پاکستان کی باتیں سننا چاہتے تھے، پاکستان کیسا ہے اورلوگ کیسے ہیں؟ کیاوہ مقبوضہ کشمیر والوں کو بھی اتنا ہی یاد کرتے ہیں کہ نہیں ۔۔۔ہمیں ایسے لگ رہا تھا کہ ہم کوئی معرکہ سرکر کے آئے ہیں ، میزبان کے لئے لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا، خیر ان سب سے ملاقات ہوئی وہ خواتین مجھے دیکھتیں میرے ہاتھ چومتیں اور میں شرمندہ شرمندہ سی ہوئی جاتی ، ان کی محبتوں نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا، ہم بازار جاتے ہمارے ساتھ موجود میزبانوں میںسے کوئی کہہ دیتا کہ یہ پاکستان سے آئے ہیں تو دکاندار ہم سے دام لینے کو تیار نہ ہوتا اوریہ ہماری تربیت اور مزاج کے خلاف تھا ، راہ چلتے خواتین لڑکیاں اشارے کرتیں کہ یہ وہ سیدانی ہے جو پاکستان سے آئی ہے مجھے پہلی بار اندازہ ہو ا کہ پاکستان کس عشق اور وارفتگی کا نام ہے۔ یہیں عبداللہ شاہ مظہر کے بڑے بھائی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا وہ کراچی کی ضلعی حکومت میں ملازم تھے کہنے لگے ’’لمحہ تو وہ تھاجب ہم واپسی کے لئے بس اسٹاپ پر پہنچے لوگوں کا اک اژدھام ہمیں الوداع کرنے کے لئے آیا سچ میں ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کوئی وی آئی پی ہیں بلکہ وی وی آئی پی، جانے کون کون گلے مل رہا تھا اور مصافحہ کررہا تھاہماری آنکھیں بھی نم تھیں اور ہمارے میزبانوں کی بھی ، واپسی کا وقت ہوچلا تھا کہ ہمارے اک عزیز نے ہمیں مشکل میں ڈال دیاکہنے لگے ہمیں کوئی پاکستان کی نشانی دے جائیں، میں سوچ میں پڑگیا کہ اس وقت انہیں کیا دوں، سامان بس میں لوڈہوچکا ہے اوراس وقت میرے پاس ایساکچھ ہے بھی نہیں، اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے بٹوہ کھول کر ایک نوٹ کھینچا تو اس نے جلدی سے میرے ہاتھ پرہاتھ رکھ دیا یہ کیا کرنے لگے ہیں میں نے کہا یہ پاکستان کا نوٹ آپ کو پاکستان کی یاد دلاتا رہے گا ، اس نے جلدی سے نفی میں سرہلایا اور کہا یہ نوٹ اگر بھارتی فوج نے کہیں میری جیب سے نکال لیا تو دہشت گرد قرار دے کر گولی ماردیں گے ، اب میں نے بے بسی سے کہاکہ پھر کیا کروں جواب میں اسکی نظریںمیرے کرتے پر جم گئیںاور میںگھبرا گیا کہ یہ کیامجھ سے کرتا مانگنے والا ہے اور کیا یہ واقعی بے وقوفی کرے گا اس نے سوال کیا کیایہ کرتا پاکستان کا ہے ناں میں گڑبرا گیا کہ کیا کہوں لیکن میرے جواب دینے سے پہلے ہی اس نے فرمائش کر ڈالی کہ’’اس کا ایک بٹن ہی مجھے نکال دیں میں پاکستان کی نشانی سمجھ کر رکھ لوں گا‘‘ یہ بتاتے ہوئے میرا میزبان بھی جذباتی ہوگیا اور میں بھی، اسکی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی اور میری آنکھوں کے گوشے بھی بھیک گئے مجھے بھی اس دن اندازہ ہوا کہ پاکستان کس محبت عشق اور وارفتگی کانام ہے ہم سب پاکستان سے شاکی رہتے ہیں کہ اس نے ہمیں کیادیا کبھی ہم نے خود سے سوال کیا کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟پاکستان تو ایک کورا اجلا سچابرتن تھا ہم نے یہ برتن اسلامی نظام کی زم زم ڈالنے کے لئے لیا تھانہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جھوٹی شراب کے لئے !ہم نے اس نظام کو چلنے کیوں دیا جسے الٹنے کے لئے لاکھوں لوگوںنے اپنی زندگیاں قربان کیں ،بھرے پرے گھر،جمے جمائے کاروبار چھوڑے اور یہاں مہاجر کیمپوںمیں آگئے،بھارتی پنجاب کے وہ کنویں آج بھی موجود ہیں جہاںہزاروں پاکباز خواتین ،لڑکیوں نے اپنی عصمتیں بچا نے کے لئے چھلانگیں لگائیں اور پاکستان پر قربان ہوگئیں آج ہمیں پاکستان سے شکوہ ہے لیکن کیا کبھی ہم نے پاکستان کا شکوہ سنا !ذرا سنیں پاکستان بھی تو کچھ کہہ رہاہے !