پانامہ کا شور اٹھا تو سپریم کورٹ نے تحقیقات کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا دی۔اُس جے آئی ٹی نے تحقیقات کرنے کے بعد مختلف والیئمز میں رپورٹ تیار کر کے سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ اسی رپورٹ کے والیم ایک کے صفحہ نمبر 231 کے آخری پیرا گراف میں لکھا ہے کہ مریم صفدر نے اپنے اثاثوں میں ایک BMW گاڑی کو ظاہر کیا جو ان کے مطابق انہیں متحدہ عرب امارات کی رائل فیملی کی طرف سے تحفے میں دی گئی۔2009-10 کے اثاثوں میں مریم نواز نے اس کی ویلیو 35 لاکھ روپے ظاہر کی۔ پھر 2011-12 کے اثاثوں میںمریم نواز نے اسی گاڑی کو ایک کروڑ چھیانوے لاکھ روپے کے منافع کے ساتھ بیچنے کا ذکر کیا ۔پھر 2012-13 میں اسی گاڑی کو اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں بھی ظاہر کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز اسی گاڑی کی کسٹم ڈیوٹی بھی ادا کر چکی ہیں جو کہ کسٹم ریکارڈ سے واضح ہے۔ پانامہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے اس حصے کی مریم نواز نے اب تک تردید نہیں کی۔ اس سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک: مریم نواز کو متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کی طرف سے جو بیش قیمت BMW گاڑی تحفے میںملی اس کی قیمت کو کم کر کے صرف 35 لاکھ کا ظاہر کیا گیا۔ دو: مریم نواز نے شاہی خاندان کی طرف سے ملنے والے بیش قیمت تحفے کو مارکیٹ میں بیچ دیا حالانکہ انہیں عمران خان کے لیے مرتب کردہ اصول کے مطابق خود استعمال میں رکھنا چاہیے تھا۔ تین: مریم نواز کی اس گاڑی کا ذکر دو دن پہلے جاری ہونے والے توشہ خانہ ریکارڈمیں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان پر اب تک سب سے بڑی تنقید یہی ہوتی رہی ہے کہ انہوں نے دوست ملک کے سربراہ کی طرف سے ملنے والے تحفے کو مارکیٹ میں بیچ کیوں دیا ۔ تنقید کرنے والوں کا خیال تھا کہ یہ پرلے درجے کی بد تہذیبی ہے ، اس سے جگ ہنسائی ہوئی اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ اصول تنقید کرنے والی مریم نواز پہ لاگو کیوں نہیں ہوتا۔ آخر انہوںنے شاہی خاندان کی طرف سے ملنے والی بیش قیمت گاڑی بیچ کیوں دی۔ دوسرا اگر یہ گاڑی دو کروڑ تیس لاکھ کی بیچی گئی اور اس پہ ایک کروڑ چھانوے لاکھ کا منافع کمایا گیا تو صاف ظاہر ہے اس کی قیمت پینتیس لاکھ روپے ظاہر کرنا حقائق کے منافی تھا اور اسے اصل قیمت سے کم ظاہر کیا گیا ۔یہی الزام تو عمران خان پر بھی ہے۔ تو پھر الزام لگانے والے خود اپنے بارے میں کیا کہیں گے۔ تیسرا ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد توشہ خانہ سے جاری ہونے والی فہرست پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ کیا یہ گاڑی توشہ خانہ کے ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اور اگر ظاہر کر دی جاتی تو کیا توشہ خانہ سے گاڑی لینا خلاف قانون نہیں ۔ خود نواز شریف نے توشہ خانہ سے مرسیڈیز بینز صرف چھ لاکھ روپے ادا کر کے حاصل کی۔ اول تو توشہ خانہ سے گاڑی لی ہی نہیں جا سکتی ۔ قانون باقی تحفوں کو ادائیگی کے بعد رکھنے کی اجازت دیتا ہے لیکن گاڑی کو نہیں ۔ نواز شریف نے قیمتی گاڑی کی ویلیو صرف 45لاکھ روپے لگوائی اور پھر چند فیصد ادا کرکے محض چھ لاکھ روپے میں حاصل کر لی۔ مریم نواز نے گذشتہ روز ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو میرے خلاف ایک پائن ایپل کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ مریم نواز اپنے والد کی جانب سے حاصل کردہ دس گھڑیاں، والدہ اور بھائی کی جانب سے حاصل کردہ گھڑیا ں ،ہار اور دیگر تحائف کا ذکر کرنا بھول گئیں۔کیا مریم نوازپر لازم نہیں ہے کہ اپنے والد کے نام پر پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے صرف اپنا نہیں اپنے خاندان کا بھی حساب دیں اور بتائیںکہ ان کی فیملی نے کن کن تحائف پر ہاتھ صاف کیے۔ افسوس کہ عمران خان بھی اس کھیل میں اوروں سے مختلف نہ نکلے۔ انہوں نے بھی توشہ خانہ کو کاروبار کا ذریعہ سمجھا اور قیمتی تحائف سستے داموں خرید کر مہنگے داموں بیچ دیے۔ ان کی اہلیہ کی شہرت تو مذہبی شخصیت کی ہے انہوں نے بھی قیمتی ہار اوردیگر تحائف کو نظر انداز نہ کیا اور ان کے حصول سے پیچھے نہ رہیں۔ اگرچہ یہ سب قانونی انداز میں ہی کیا گیا ہو گا مگر بلند اخلاقی معیارات کا ذکر کرنے والے عمران خان کو اس سب سے دور رہنا چاہیے تھا۔ شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، احسن اقبال اور دیگر بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آئے۔ مریم اورنگزیب نے البتہ اپنے تحفے توشہ خانہ میں جمع کرا دیے۔ وقت آ گیا ہے کہ توشہ خانہ پر قانون سازی کر کے واضح اصول مرتب کر دیے جائیں ۔ قیمتی تحائف کو کاروبار کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔پاکستانی سیاست میں کوئی اتنا غریب نہیں کہ خود کے لیے رولیکس کی ایک گھڑی نہ خرید سکے۔دل کے لالچ کا تو کوئی علاج نہیں ۔ لہذا نہ صرف ان تحائف کو عوامی فلاح کے مصرف میں لایا جانا چاہیے بلکہ ہر سال اس کی تفصیل بھی جاری ہونی چاہیے تاکہ اندازہ ہو کہ کس کس ملک کی جانب سے کون کون سے تحائف ملے اور یہ بھی کہ انہیں کہاں کہاں خرچ کیا گیا۔ توشہ خانہ کو سیاسی موضوع بنانے سے دنیا میں اور بھی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ تحائف دینے والے ممالک ہنستے ہوں گے دیکھو کیسے ایک ایک گھڑی کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں ۔ غریب قوم کے امیر نمائندے کانوں کی بالیوں اور گلے کے ہار کے لیے بے نقاب ہو رہے ہیں۔جگ ہنسائی کا یہ سامان اب ختم ہونا چاہیے۔ یہ حمام بند کر دیناچاہیے جہاں سب ننگے کھڑے ہیں۔ ٭٭٭٭٭