ایک ہفتے کے لیے متحدہ عرب امارات میں تھا۔ سوچا تھا کہ واپسی پر ابوظہبی‘ دبئی‘ شارجہ اور عجمان میں گزرے وقت پر کچھ کالم لکھوں گا‘ وطن عزیز کے حالات لیکن سوچ کو تخلیقی رخ پر آگے بڑھنے نہیں دیتے‘ کوئی حادثہ‘ کوئی سانحہ ہمارے راستے میں آ جاتا ہے اور ہم اپنا قیمتی وقت اس کے متعلق سوچنے پر خرچ کر دیتے ہیں۔آج کا کالم اسی درپیش صورتحال پر اپنا موقف ریکارڈ پر رکھنے کے لئے ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے ہر شعبے میں نالائقی دکھائی۔عام پاکستانی کی زندگی میں جو کانٹے تھے وہ ایک سال میں زیادہ چبھنے لگے ہیں۔پی ڈی ایم لیڈروں کو بس اپنے خلاف قائم مقدمات ختم کرانے اور تحریک انصاف کو عسکری قیادت کے مقابل کھڑا کرنے میں کامیابی ملی۔ یوں ریاست کے لیے مسائل پیدا ہوئے جن کا فائدہ حکومت کو مل رہا ہے۔ اپنی ناکامیوں کو ملک کے خراب حالات کے اکائونٹ میں ڈالنے سے پی ڈی ایم سمجھتی ہے اس کا بھلا ہو سکتا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکمت عملی اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے اسے ریاست کا عمل سمجھا جارہا ہے۔ سیاسی انتقام‘ صحافیوں کے خلاف قراردادیں اور گرفتاریاں‘ ناجائز مقدمات‘ سیاسی اشتعال انگیزی‘ اس سے ریاست اور شہری کے درمیان خلیج حائل کی جا رہی ہے۔شاید اپنے غیر مقبول ہونے کا بدلہ لیا جارہا ہے ۔ درپیش حالات کی اہم فریق پی ٹی آئی ہے۔ ملک کی سب سے مقبول جماعت‘ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر تنقید اس لیے روا رہی کہ دونوں خاندانی جماعتیں بن کر رہ گئیں۔ دونوں نے طے کر لیا کہ بھلے ان کے خاندان کا وارث کتنا ہی نااہل اور ناسمجھ ہو پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار وہی ہوگا۔ اس سوچ نے معقول اور صاحب فراست افراد کو پارٹی کے بالائی کیڈر میں آنے سے روکا۔ یوں ان جماعتوں کی جب بھی حکومت بنی سطحی صلاحیت کے افراد وزیر بنے جو محض پارٹی سے وفادار رہنے، چندہ دینے یا جلسے جلوسوں میں نمایاں کردار ادا کرنے کی بنیاد پر اہم عہدوں کے خواہش مند رہے۔ اس سے جہوری سیاست سیلف میڈ ، کامیاب اور لائق افراد سے خالی ہوتی گئی۔ تحریک انصاف کی اٹھان ملک کے مسائل حل کرنے کی خواہش اور دونوں بڑی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوسی کا نتیجہ تھی۔ اس جماعت میں وہ لوگ تیزی سے شامل ہوئے جو ریاستی امور سے دور کر دیئے گئے تھے۔ ریاست انہیں روزگار‘ رہائش‘ انصاف‘ تحفظ‘ تعلیم‘ صحت کی سہولیات‘ اچھا ٹرانسپورٹ سسٹم‘ میونسپل سروسز اور آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ یہ لوگ سیلف میڈ تھے‘ اوورسیز پاکستانی تھے‘ نظر انداز اور محروم طبقات تھے۔روز افسوں تباہ ہوتی حالت میں زندہ رہنے کی جدوجہد کرنے والے تھے۔یہ قوم کے وہ معمار تھے جنہیں کبھی مریم ،حمزہ ،، بلاول ،اسعد وغیرہ وغیرہ جیسی زندگی نے جھلک تک نہ دکھائی۔ پی ڈی ایم نے اقتدار کی ہوس میں تحریک انصاف کی غیر مقبول ہوئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرالی۔ایسی تحریک جمہوری نظام کا حصہ ہوتی ہے ، ہارنے والا اسے تسلیم کرتا ہے ۔ ایک کمزور نظام میں ایسی تحریک عدم اعتماد بحران کا باعث بنتی ہے۔ نظام مستحکم اور ریاست مضبوط ہو تو تحریک عدم اعتماد کو عوامی حمایت حاصل رہتی ہے۔ دوسری غلطی تحریک انصاف سے ہوئی۔ ایک برس سے اپنے کارکنوں کی طاقت احتجاج‘ مظاہروں اور جلسوں پر خرچ کی جا رہی ہے جو لوگ سوچنے سمجھنے اور پالیسی سازی کی استعداد رکھتے ہیں وہ تحریک انصاف کی موجودہ سرگرمیوں میں غیر اہم ہورہے ہیں۔ کل کلاں انتخابی ٹکٹ کے حقدار وہی ہوں گے جو مظاہروں اور احتجاجی سرگرمیوں میں نمایاں ہوئے۔ یوں داخلی طور پر تحریک انصاف اسی خرابی کی شکار ہو سکتی ہے جو ایک دوسری وجہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہوئیں۔ میں دبئی میں تھا۔ بریکنگ نیوز اور دل دہلا دینے و الی خبروں سے بہت دور۔ عمران خان کی گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا سے ملی۔رات گئے اپارٹمنٹ میں آ کر ٹی وی لگایا۔ ہر طرف ہاہا کار۔ بہت سے اندیشے سر اٹھانے لگے۔ اگلے چند گھنٹوں میں یہ اندیشے درست ثابت ہوئے۔ حکومتی وزراء اور رہنما ٹی وی سکرین کو خالی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ ایک جاتا‘ دوسرا آ جاتا۔ لہجے پٹرول چھڑک رہے تھے جن سے سیاسی تصادم ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہو گیا۔ مظاہرین نے حکومت کی بجائے ریاست کو نشانے پر رکھ لیا۔ اس موقع پر مظاہرین کو رہنمائی سے محروم کر دیا گیا۔ حکومت نے کوشش کی کہ مظاہرین اور قیادت میں رابطہ کاٹ دیا جائے۔ یہ حقائق اپنی جگہ لیکن اس امر کی کیا وضاحت پیش کی جا سکتی ہے کہ جی ایچ کیو‘ کور کمانڈر ہائوس اور دیگر عسکری دفاتر مظاہرین کا نشانہ بنے۔حکومت کی چال ہو سکتی ہے لیکن اس چال کو سمجھنے میں تحریک انصاف کے لوگوں کو اتنی دیر کیوں لگی ؟ اس لئے کہ پارٹی مسلسل اپنے دانشور اور سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو پیچھے دھکیل رہی ہے ،ٹکراو کی فکر والے آگے آ رہے ہیں ۔اس سے پی ٹی آئی کی بطور پر امن سیاسی شناخت متاثر ہو رہی ہے۔ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، پر تشدد احتجاج سے قوم کے ٹیکس سے مکمل ہوئے منصوبے نقصان سے دوچار ہوئے، نئے عہد کی جماعت کو سوچنا چاہئے تھا کہ وہ تباہ حال ملک میں اپنا موقف کیسے پیش کر سکتی ہے ۔پھر وہ لوگ کیسے مظاہرین میں شامل ہو گئے جن کی توجہ لوٹ مار پر تھی۔ حالات غیر معمولی شکل اختیار کر چکے ہیں ، سیاسی جماعتیں، سکیورٹی ادارے اور قومی املاک ہماری ہیں۔بحران کا مرکزی نکتہ آئین سے انحراف ہے ۔اس پر سب کا اجماع ہو جائے تو ملک میں امن و استحکام آ سکتا ہے ۔مسلح افواج کے متعلق منفی بیانات بند ہونے چاہئیں، حکومت کو جلتی پر تیل ڈالنے سے گریز اور عمران خان کو ایسے موقع پر دو ٹوک انداز میں اپنی پالیسی کے پر امن ہونے کا اعلان کرنا چاہئے ۔