ایک کہاوت ہے کہ ہرگاؤں میں ایک نہ ایک بدھو ضرورہوتا ہے۔ اگرایک سے زیادہ بدھو ہوں توآوے کاآواہی بگڑ جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال لگتا ہے ہم پاکستانیوں کا ہوچکا ہے۔جب صرف اور صرف طاقتور کو ہی اختیار ہے کمزوروں کی زباں بندی کا اور گدْی سے زبان کھینچ لینے کا تو پھر ہمیں اس زبان کا کرنا ہی کیا ہے؟ کیوں نہ اسے بْھون بھَان کر پائے کے شوربے میں ڈال کر انہی طاقتوروں کو کھلا دی جائے تا کہ اس کی زبانوں کا چسکا تو پْورا ہو جائے۔ اور کچھ ہواہویا نہیں مگر اب غریب اور بے بس عوام خالی خولی نعروں،دعووں اور بیان بازیوں سے مطمئن نہیں ہو سکتے۔ 76 سال پوری پون صدی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس پوری پون صدی میں پاکستانی عوام کو جس معاشی مشکلات اور مہنگائی کا سامنا در پیش ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ عام آدمی جب شام کو کام سے گھر لوٹتا ہے تو بد مزاجی اس کے دامن سے لپٹی ہوتی ہے۔ تھوڑی سی تفریح کے لیے شام کی چائے پینا چاہے تو کبھی چینی ندارد اور کبھی چائے کی پتی۔ اگر ٹی۔ وی کھول لے تو وہاں بھی ٹاک شوز پر سیاست دانوں کی بے ہنگم لڑائیاں دیکھ دیکھ کر دل و ذہن میں ٹیسیں اْٹھنے لگتی ہیں۔ ان سیاست دانوں نے ملک کو کیا سنوارنا ہے جب کہ ان کے عقائد ہی شخصیت پرستی کے ساتھ جتے ہوئے ہیں۔ ان کی دکھاوے کی ذاتی لڑائیاں ختم ہی نہیں ہوتیں اس لیے کہ پسِ پردہ یہ سب پیٹی بھائی ہیں۔ معاشی حالات کی ابتری وہ زمینی حقائق ہیں جو دہائیوں سے پنپنے والی بدعنوانیوں کی دین ہیں۔ آئین اور اس کی عمل داری کے بغیر جمہوریت بس اِک خام خیال ہے۔ فی الوقت تو تمام بڑی سیاسی پارٹیاں بھی اقرباپروری کی انتہا کو چھْوتی ہیں۔ آئینی تقاضے ہیں کہ انتخابات بر وقت ہوں۔ مگر اب وقت گزر چکا ہے اور گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ انتخابات اور آئین کا احترام کرنے والے معاشرے ہی ترقی و ترویج پا کر دنیا میں نام کماتے ہیں۔ عام انتخابات کا شورو غوغا تو اب چاروں طرف سْنائی دیتا ہے مگر ہنوز دلی دوراست۔ اس وقت بھی الیکشن میں تاخیر ہونے کی آوازیں سندھ سے اْٹھ رہی ہیں۔ نگران وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پوری ذمہ داری سے اپنا کام کر رہا ہے اور یقین ہے کہ انتخابات آزادانہ ہوں گے۔ مگر ہواؤں میں کبھی بے یقینی کے جھکڑ چلنے لگتے ہیں تو کبھی یقین کی ٹھنڈی ہوائیں گْد گْدانے لگتی ہیں۔ زخم کھا کر بھی مسکراتے اور لڑکھڑاتے عوام اپنے ووٹ کی طاقت پر نازاں ہیں اور بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں 8 فروری 2024 کا کہ جب وہ اپنی مرضی کے لیڈر کا چناؤ کر سکیں۔ الیکشن کا انعقاد وہ طے شدہ اور مْہر شدہ امر ہے جس کا مقصد ملک میں شفاف ووٹنگ کے ذریعے سے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے والی پارٹی حکومت تشکیل دینے کے قابل ہو۔ فی الحال تو کچھ کہنا قبل از وقت لگتا ہے کیوں کہ نہایت تیزی سے نئے سیاسی بندھن بھی باندھے جا رہے ہیں۔ انتخابی ماحول کو مزید گرمانے کے لیے نِت نئے سیاسی اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ فروری کے مہینے میں بس لگ بھگ کچھ ہی دن باقی ہیں مگر انتخابی مہموں کی گہما گہمیاں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ باوجود اس کے کہ نگران حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ رقم بھی جاری کر دی گئی ہے۔ الیکشن کی فہرستوں کی اشاعت سے لے کر حلقہ بندیوں تک کے کام مکمل ہو چکے ہیں۔ اب تو صرف اور صرف عام انتخابات ہی ملک میں نئے استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب تک عوام اشرافیہ کے ہتھکنڈوں کو نہیں سمجھیں گے تب تک ان کے ہاتھوں عوام سیاست، مذہب، ادب اور ثقافت کے نام پر بٹتے رہیں گے، لْٹتے رہیں۔ اپنے حقوق اور فرائض دونوں کو ایمان داری سے سمجھنے کی جدوجہد ہر صورت کرنا ہو گی۔ بھروسہ پیڑ کی وہ چھاؤں ہے جو انسان کو پناہ گاہ مہیا کرتا ہے۔ آج پاکستانیوں کا اپنے سیاست بازوں پر سے اعتبار اور بھروسہ اْٹھ چکا ہے۔ ان دنوں پت جھڑ کا موسم ہے۔ مٹی کے رنگ بدلنے کا موسم ہے۔ خزاں کے بعد ہی نئی کونپلیں بہار کی صورت آتی ہیں۔ وطن تو ہمیشہ سے ہی ہمارا انتخاب ہوتا ہے کیونکہ وطن ہمیں چْن لیتا ہے۔ بالکل ویسے جیسے ہر پْھول کسی گلشن کا انتخاب کرتا ہے۔ جیسے ہر شاہین کا اپنا آسمان ہوتا ہے۔ ہر مچھلی کا اپنا دریا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کا اپنا وطن ہوتا ہے۔ جس وطن سے وہ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ ہم پاکستانی بھی اپنے وطن سے اٹوٹ محبت کرتے ہیں۔ نئے سال میں ہونے والے انتخابات میں نئی حلقہ بندیوں پر بھی سیاسی پارٹیوں کو مختلف اعتراضات ہیں۔ عوام کا متوسط طبقہ اس وقت جس ذہنی انتشار کا شکار ہو چکا ہے اس طبقے کی ساری اْمیدیں اور توجہ انتخابات اور سیاست دانوں سے جْڑی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں سیاسی پارٹیوں کے پاس کیا منشور ہے عوام جاننا چاہتے ہیں۔ مگر تاحال کسی بھی بڑی یا چھوٹی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ایسا بیانیہ سامنے نہیں آیا جو عوامی گھٹن کو کم کر سکے۔ کہیں لیول پلیٹنگ فیلڈ کا راگ الاپا جا رہا ہے تو کہیں بزرگوں کی سیاسی رْخصتی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بہت سی شکایات کا سامنا ہے۔ اس وقت صنعتی پہیہ جام ہو چکا ہے اور قومی نا پائیداری نے عوام کو منفی رویوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ کاش! اے کاش! اس ملک کے تشویشناک حالات جو ہمارے رنج والم کا باعث بنتے جا رہے ہیں کوئی تو آئے جو ہمیں مایوسیوں سے نکالے! معاشرتی ترقیوں کے لیے ماضی کی تلخیوں کو بھلانا پڑتا ہے۔ ذاتی مفادات سے باہر نکل کر شفاف انتخابات کا راستہ ہی آخری کامیابی ہے تاکہ جمہوریت کبھی تو حقیقی رنگ میں دکھائی دے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ جب مویشی چوری ہوچکے ہوں تو پھر تالا کیوں لگانا ہے۔ایک پنجابی کی کہاوت: ’’اِک ہووے کملا تے سمجھاوے ویہڑا جے ویہڑاای ہووے کملا فیر سمجھاوے کیہڑا‘‘