مائیک گپئوگلے نے کہا ہے کہ جہاں جتنی کرپشن ہو گی وہاں کے لوگ اتنا ہی حکمرانوں سے نفرت اور حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کریں گے۔پاکستان میں حکومتوں کو عوام کی کس قدر تائید و حمایت حاصل رہی ہے اس کا اندازہ کرپشن انڈیکس میں پاکستان 180ممالک میں سے 140ویں نمبر پر ہونے سے بخوبی ہوتا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کرپشن کے حوالے سے 13اکتوبر سے 31اکتوبر تک چاروں صوبوں میں سروے کروایا جس کے مطابق پولیس پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ جب کہ کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ دوسرے عدلیہ کا بدعنوانی میں تیسرا نمبرہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا پاکستان میں لوٹ مار کے حوالے سے بالترتیب چوتھا اور پانچواں نمبر ہے۔ پولیس کا کرپشن میں پہلا نمبر اس لئے سمجھ میں آتا ہے کیونکہ یہی وہ ادارہ ہے جو فروغ بدعنوانی کا سبب ہے۔ کرپٹ افراد قومی خزانہ لوٹنے کے بعد پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارہ کو حصہ دے کر ہی اپنا دھندہ چلاتے ہیں۔ 2023ء میں بدعنوانی میں صحت کے شعبے کا پانچواں نمبر رہا مگر جس طرح محکمہ صحت میں قومی وسائل کی لوٹ مار زوروں پر ہے 2024ء میں یہ ادارہ بدعنوانی میں پاکستان کے تمام اداروں کو کم از کم پنجاب کی حد تک تو پیچھے چھوڑ جائے گا ۔ کیونکہ بدعنوانی کی دوڑ میں پاکستان کا دوسرا بدعنوان ترین کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ محکمہ صحت میں اپنا بھر پور رنگ دکھا رہا ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ وزیر اعلی محسن نقوی نے جس سرعت اور ذاتی دلچسپی سے پنجاب میں ترقیاتی کام کروائے ہیں ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر وزیر اعلیٰ پنجاب نے شاید ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ غور سے نہیں پڑھی جس میںصرف یہی انکشاف نہیں کیا گیا کہ کنٹریکٹ کرنے والا محکمہ پاکستان کا دوسرا بدعنوان ترین ادارہ ہے بلکہ یہ نشاندہی بھی کر دی ہے کہ بیورو کریسی اپنے عہدوں اور اختیارات کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرنے میں ماہر ہے۔ وزیر اعلیٰ اگر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ افسر شاہی کس طرح اختیارات اور عہدوں کو ذاتی مفاد میں استعمال کرتی ہے تو ان کو یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ افسر شاہی مال بنانے کے لئے ایسے ایسے میگا پراجیکٹ کے منصوبے بناتی ہے جن کی منظوری کابینہ اور وزیر اعلیٰ سے لینی پڑتی ہے۔ خوشامدی آفیسر وزیر اعلیٰ اور کابینہ سے ایسے منصوبوں کی منظوری لیتے ہیں مگر جب کرپشن کی تحقیقات ہوتی ہیں تو لاٹ صاحب بدعنوانی کا پھندا حکمرانوں کے گلے میں ڈال کرخود پوتر بن جاتے ہیں۔افسر شاہی کے اثرورسوخ کا یہ عالم ہے کہ اب تو نیب کے سربراہ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ آئندہ نیب افسر شاہی سے سوال نہیں کرے گی اور جن کے خلاف مقدمات درج ہیں ان کے بری ہونے پر موصوف خود ان کے گھر جا کر معافی مانگیں گے۔ دوسرے لفظوں میں نیب کی نظر میں افسر شاہی پوتر جب سیاستدان ’’چور‘‘ ہیں۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ نیب ہمیشہ اپنی تحقیقات کا آغاز اس وقت کرتا ہے جب سیاستدان کرسی پر نہیں ہوتے۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی صوبے میں عوام کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کی خواہش اور اقدامات جتنے بھی خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہوں مگر یہ واضح کہ افسر شاہی وزیر اعلیٰ کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعلیٰ پنجاب سے صوبائی دارالحکومت کے لگ بھگ تمام بڑے ہسپتا لوں میں بیک وقت تزین و آرائش کے کام شروع نہ کروائے جاتے۔ یہ سچ ہے کہ لاہور کے ہسپتالوں میں آبادی کے لحاظ سے مناسب طبی سہولیات فراہم کرنے کی سکت نہیںمگر یہ سہولت اچھی بھلی عمارتوں کو توڑ کر ٹائلیں لگوانے سے تو ملنے سے رہی۔ افسر شاہی کا کمال یہ ہے کہ صرف میوہسپتال میں تھوڑ پھوڑ قومی خزانے کو تین ارب میں پڑے گی۔ اگر پورے لاہور کے ہسپتالوں کے ٹھیکوں کی بات کی جائے تو یہ رقم 40ارب سے زائد ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ یہ خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود عوام کو سہولتیں کیا ملیں گی؟۔ ہسپتال میں مریضوں کی گنجائش تو اتنی ہی رہے گی اور ایک بیڈ پر چار چار مریض پڑے ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ اگر افسر شاہی کی عیاریوں کا شکار نہ ہوں تو عمارتوں میں ٹائلیں لگانے پر جتنا خرچ کر رہے ہیں اس سے بھی کم میں نئی عمارتیں بنا کر ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد میں اضافہ کرسکتے تھے۔ ٹیسٹوں کی بہتر سہولیات اورمریضوں کو مفت ادویات کا بندوبست کیا جا سکتا تھا۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ میوہسپتال کے پاس مریضوں کے لئے دوائی خریدنے کے پیسے نہیں۔ ہسپتال نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے 180کروڑ روپے ادویات کی مد میں ادا کرنے میں۔ میڈیسن استعمال بھی ہو چکی مگر ہسپتال اب تک ادائیگی نہیں کر پا رہا۔ افسر شاہی کا کرشمہ دیکھیں کہ میوہسپتال ادویات کی مد میں 180کروڑ کا مقروض ہے مگر 120کروڑ روپے کا بجٹ فراہم کیا گیا ہے جس سے پہلے سے خریدی گئی ادویات کی ادائیگی ہی نہ ہو پائے گی۔ ہسپتال آئندہ کے لئے دوائی کہاں سے خریدے گا؟۔ ایمرجنسی بلاک میں نئی ٹائلیں لگ بھی گئیں تو وہاں ایک بیڈ پر تین تین مریض دوائی کے بغیر مرنے پر مجبور ہوں گے۔ رہی سہی کسے کرپٹ انتظامیہ نکال دے گی۔ میو ہسپتال کے ایک اے ایم ایس ایڈمن ،پہلے ہی دو بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دیدہ دلیری ایسی کہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی ہدایات کے برعکس کلیریکل سٹاف میں گریڈ سولہ کے اسٹنٹ کے بجائے گریڈ 15کے سٹینو گرافر کو آفس سپرنٹنڈنٹ لگا دیا جس نے آتے ہی ہر کام کے دام مقرر کر دیئے ۔ پہلے ملازمین کو انکوائری میں پھنسایا جاتا ہے جو اے ایم ایس ایڈمن نے ہی کرنی ہوتی ہے۔ دام وصول کرنے کے بعد انکوائری نمٹا دی جاتی ہے۔ میوہسپتال میں ہی نہیں کم وبیش پورے پنجاب کے ہسپتالوں میں ایسے ہی افسر ہیں۔ چیئرمین نیب تو پہلے ہی حکم صادر کر چکے ہیں کہ جرم ثابت ہونے تک کسی افسر کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ مطلب مستقبل میں احتساب کی نوبت آئی تو افسر سیٹ پر ہوں گے اور کابینہ کے ارکان نیب کی حراست میں۔ جب بھینسیں بھینسوں کی بہینیں ہو گی تو مجرم صرف سیاستدان ہی ثابت ہوں گے۔ بہتر ہو گا وزیر اعلیٰ پنجاب افسر شاہی اور کنٹریکٹ کرنے والوں کے جال سے نکلنے کا ابھی سے کوئی انتظام کر لیں یا کم از کم سوچ بچار ضرور کریں۔