دبئی اور عجمان میں ’’ارمغان لاہور‘‘ کی تقریب پذیرائی کی ذمہ داری سرمد خان نے لی اور مجھے آنے کی دعوت دے دی۔ پانچ مئی کو اپنے پبلشر عبدالستار عاصم اور فاروقی چوہان کے ساتھ لاہور سے ایئربلیو کی پرواز لی۔ دونوں احباب کی نشستیں مجھ سے دور تھیں۔ میرے ساتھ والی نشست پر دراز زلفوں اور چھوٹی چھوٹی داڑھی والا نوجوان ابرار تھا۔ ابرار کی سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی۔ میں مناہل کے لیے ٹیک آف اور دوران پرواز بلندی کی کچھ ویڈیو بنانا چاہتا تھا۔ ابرار پہلے ہی اپنا فون اس مقصد سے تیار کئے بیٹھا تھا۔ اس نے ویڈیو میں اپنے ساتھ مجھے شامل کر کے ریکارڈنگ کر دی۔ پانچ چھ ویڈیو۔ سب کی کوالٹی اور منظر کشی عمدہ۔ وہ کہنے لگا ’’مجھے ویڈیو بنانے کا شوق ہے‘‘ پھر اس نے فون میں موجود بہت سی جگہوں کی ویڈیو دکھائیں۔ مجھ سے دبئی کے سفر کی بابت پوچھا۔ میں نے اپنی کتاب اورتقریبات کا بتایا تو ابرار نے علمی و ثقافتی معلومات میں گہری دلچسپی کی۔ اس کی کہانی بھی عجیب ہے۔ والد ایئرفورس سے ریٹائر‘ تعلق سوات سے ہے۔ لا ہور کینٹ میں رہائش ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے دبئی میں اپنا امیگریشن اور امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کر رہا ہے۔ ابرار نے امیگریشن اور سٹوڈنٹ ویزہ سے متعلق ایسی معلومات دیں کہ مجھے لگا یہ کسی ذاتی تجربے کا حاصل ہے۔ ابرار نے میرے خیال کی تائید کی۔ بتایا کہ وہ لاہور میں کام کرتا تھا۔ ایک پرانے ملنے والے نے اسے کسی تعلیمی ادارے میں سٹوڈنٹ ویزہ پر سیشن رکھوانے کی درخواست کی۔ ابرار نے ایک جاننے والے کو اپنے نجی کالج میں سیشن کرانے کا کہا۔ چند روز بعد طلباء کے والدین نے کالج انتظامیہ سے رابطہ شروع کردیا کہ وہ اپنے بچے کو باہر پڑھنے بھیجنا چاہتے ہیں۔ کالج انتظامیہ نے ابرار سے رابطہ کیا۔ ابرار نے ملنے والے اسی ایجنٹ سے بات کی۔ ایجنٹ نے اسے کہا کہ وہ سب سے پیسے پکڑلے۔ ابرار کے پاس ساٹھ لاکھ سے اوپر رقم جمع ہوگئی۔ اس نے زندگی میں کبھی اکٹھے اتنی رقم نہیں دیکھی تھی۔ ایجنٹ نے اسے مزید دانہ ڈالا کہ ہرطالب علم سے حاصل رقم میں سے ڈھائی لاکھ ابرار کا ہوگا۔ کچھ دن بعد ایجنٹ آیا اور ساری رقم لے کر چلا گیا۔ اس نے پندرہ دن میں ویزہ بھیجنے کا وعدہ کیا۔ پندرہ دن گزر گئے‘ مہینہ بیت گیا۔ سیشن رکھوانے والا ایجنٹ غائب ہو چکا تھا۔ ابرار اور کالج انتظامیہ بری طرح پھنس گئے۔ انہوں نے رقم دینے والے والدین سے بات کی۔ ان سے وقت لیا اور اپنے اثاثے بیچ کر رقوم ادا کیں۔ ابرار نے اس دوران موٹرسائیکل رکشہ تک چلایا۔ اس دھوکے کے بعد اس نے سٹوڈنٹ ویزہ کے کاروبار کو سمجھنا شروع کیا۔ کسی طرح دبئی پہنچا اور یہاں اپنا کام شروع کردیا۔ ابرار کی کہانی کا بڑا حصہ ساڑھے تین گھنٹے کی فلائٹ میں سن لیا۔ لاہور سے ایک دن میں دبئی کی 12کے قریب پروازیں جاتی ہیں جن میں سے صرف ایک پی آئی اے کی ہے۔ باقی نجی ایئرلائنز ہیں۔ ایئربلیو والوں نے سیٹیں خاصی تنگ کردی ہیں۔ میرے جیسے لمبی ٹانگوں والے کے لیے خاص پوزیشن میں بیٹھے رہنا پڑتا ہے۔ کھانے کا معیار بھی معمولی ہے۔ ابلے چاول‘ بے ذائقہ سبزی اور چکن۔ ساتھ برائونی کا ٹکڑا۔ چاول اور سالن کھا لیا۔ برائونی کا ٹکڑا واپس کردیا۔ جہاز سے اترے تو ابرار نے میرا ہینڈ کیری بیگ پکڑ لیا۔ وہ مجھے استاد محترم کہہ کر تعظیم دے رہا تھا اور میں شرمندہ۔ عبدالستار عاصم اور فاروق چوہان ساتھ آ ملے۔ میں نے تینوں کا باہم تعارف کرایا۔ ابرار نے فون نمبر کا تبادلہ کیا اور ایئرپورٹ کے باہر ہم سے رخصت ہوا۔ اب کہانی پلٹ گئی۔ میں چونکہ ابرار کے ساتھ ریذیڈنس ویزہ کائونٹر کے خودکار سسٹم سے باہر آیا تھا اس لیے مجھے دبئی کی فون سم نہ مل سکی۔ فاروق چوہان اور عبدالستار عاصم مینوئل کائونٹر سے آئے۔ دونوں کو ڈو کی سم ملی۔ ابرار رخصت ہوگیا۔ دونوں احباب نے سم فون میں ڈالی مگر وہ کام نہیں کر رہی تھی۔ سرمد باہر نظر نہیں آ رہے تھے‘ فون پر انٹرنیٹ اور کال کی سہولت نہ تھی کہ رابطہ کرسکیں۔ پون گھنٹہ تک پریشان کھڑے رہے۔ ایئرپورٹ پر کوئی پی سی او کی سہولت نہیں تھی۔ ایک پاکستانی نوجوان کو سرمد خان کا نمبر دیا کہ کہ کال کردیں۔ کال ہوئی مگر سرمد نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے ایئرپورٹ پر فروخت ہونے والی سم کی قیمت پوچھی تو وہ 135 درہم یعنی پاکستان کے گیارہ ہزار روپے کے لگ بھگ کی تھی۔ اتنے میں فاروق چوہان نے ایک اور نوجوان سے سرمد کو کال کرنے کی درخواست کی۔ خوش قسمتی سے کال اٹھا لی گئی۔ میں نے بات کی۔ سرمد ایئرپورٹ کے اندر ہم سے پندرہ میٹر دور تھے۔ شاید ہم جب نکل رہے تھے تو وہ اسی وقت اندر چلے گئے۔ سرمد الگ پریشان کہ کہیں امیگریشن والوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ ہو گیا ہو۔ انہوں نے ہماری لوکیشن پوچھی‘ اپنی بتائی اور پھر ہمیں کچھ دور سے ایک ہاتھ ہلتا نظر آیا۔ جان میں جان آئی۔ سرمد اس بار کار نہیں لائے تھے‘ ایئرپورٹ کے دروازے کے ساتھ ہی میٹرو ٹرین کا سٹیشن تھا۔ وہ ہمیں ٹرین کا سفر اور سروسزکا معیار دکھانا چاہتے تھے۔ ہماری منزل دو سٹیشن آگے ڈیرہ دبئی میں رگا کا علاقہ تھا۔ صفائی‘ تربیت‘ عملے کی مستعدی اور ٹرین سب کچھ بین الاقوامی معیار کا۔ اگلے دس منٹ میں ہم رگا سٹیشن سے نکل کر کشادہ سڑک پر آ گئے۔ لوگ تیزی سے آ جا رہے تھے۔ کالے‘ گورے‘ پیلے ہر رنگ اور نسل کے مرد و زن۔ سب اپنی دھن میں۔ کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کی فرصت نہ اجازت۔ کوئی چار منٹ کی واک کے بعد ہم سرمد خان کے اپارٹمنٹ میں پہنچ گئے۔ پچھلی بار عامر خاکوانی اور ملک سلمان ساتھ تھے۔ جوتے دروازے کے ساتھ اتارے اور ٹھنڈے ٹھار اپارٹمنٹ میں داخل ہو گئے۔ ہمارے دوست طاہر علی بندیشہ پہلے سے موجود تھے۔ ڈھائی بجے دوپہر کو روانہ ہونے والا جہاز دبئی کے وقت کے مطابق لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے اترا۔ فریش ہوتے ہوئے آدھا گھنٹہ لگا۔ فیصلہ ہوا کہ سمندری کروز پر ڈنر کیا جائے۔(جاری ہے)