ایک زمانہ تھا کہ جون کا مہینہ آتے ہیں بجٹ کا خوف لوگوں پر طاری ہوجاتا تھا۔سرکاری ملازمین کو بجٹ کا انتظار ہوتا کہ جب نہ کچھ تنخواہیں بڑھنے کی نوید ملتی۔ باقی عوام اسی خدشے سے ہلکان رہتے کہ بجٹ کے بعد زندگی اور اس سے جڑی ہر شے مزید مہنگی ہو جائے گی ۔وقت اور حالات کے بہت سارے منظر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئے ہیں۔اب جون کے مہینے کے ساتھ بجٹ اور بجٹ کے ساتھ مہنگائی کے بڑھنے کا خوف پرانی بات ہو چکی ہے۔اس لیے کہ عوام سارا سال مہنگائی کی مار کھاتے ہیں اور ایسے ادھ موئے لوگوں کو بجٹ سے مزید مہنگائی کی مار کا وہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ معاشی عدم استحکام کاستم پہلے ہی سے سہہ رہے ہوتے ہیں۔ اب تو شاید عوام ان بے حس حکمرانوں کو بددعائیں دیتے دیتے بھی تھک چکے ہیں لیکن ان کے دل سے خاموش بد دعائیں پاکستان کے اہل اختیار کا پیچھا ضرور کرتی رہیں گی کہ یہی اہل اقتدار و اہل اختیار ہیں جو چہرے اور نام بدل بدل کر ان پر حکمران رہے اور ان کی قسمتوں کے فیصلے کرتے رہے ہیں۔ ان کی بنائی پالیسیوں نے پاکستان کے عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ کیا۔ معیشت میرا مضمون ہے نہ موضوع مگر عام آدمی کی معاشی حالت پر لکھنا میرا فرض ہے ۔ بجٹ کیا ہوتا ہے صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ جو عام آدمی کو کبھی سمجھ نہیں آتا۔معاشی اشاریوں، برآمدات کی شرح، درآمدات کاحجم، افراط زر ،زر مبادلہ کے ذخائر، قرضوں کا حجم، معیشت کی یہ موٹی موٹی اصطلاحات عام آدمی کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔اس کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو اپنی جیب میں سکڑتے ہوئے پیسوں کی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے ۔اس کا بجٹ اس کی جیب میں پڑے ہوئے پیسوں سے بنتا ہے۔اور مہنگائی کے عفریت کے سامنے۔ یہ پیسے مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ایک دیہاڑی دار کا بجٹ اس کے روز کی دہاڑی پر منحصر ہوتا ہے۔دہاڑی نہیں لگتی تو اس کا بجٹ کیا اس کی زندگی تک ہل کے رہ جاتی ہے۔پاکستان کے سرکاری ملازمین کو بجٹ میں تنخواہ بڑھانے کی نوید سنائی گئی کیا پاکستان صرف سرکاری ملازمین اور سرکاری افسران کا ہے؟لاکھوں افراد پرائیویٹ دفتروں میں کام کرتے ہیں، چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، ان لوگوں کے معاشی تحفظ کا کوئی اعلان اس بجٹ میں نہیں کیا گیا۔ صحافت سے وابستہ افراد کے حالات بہت مخدوش ہیں اور ذہنی حالت اس لیے مخدوش ہے کہ اپنے مسائل پر بات نہیں کر سکتے۔مگر معاشی عدم استحکام کا شکار ایسے لوگ پھر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں، اس امید پر کہ کبھی حالات بہتر ہوں گے تو رکی ہوئی تنخواہیں ان کو مل جائیں گی۔گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کئی دوسرے کام کرنے پڑتے ہیں۔بجٹ تو صرف ایک علامت ہے۔ پاکستان میں گذشتہ چار پانچ سال سے صورتحال یہ ہے کہ عوام مہنگائی کے بوجھ سے پہلے ہی جھکے ہوئے ہیں۔ ہر مہینے آنے والے مہنگائی کے خوفناک تھپیڑے اس میں مزید اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ معاشی طور پر انتہائی مخدوش حالت میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے اس بجٹ 2024-2023 میں صرف ہیلتھ انشورنس کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہیلتھ انشورنس کا اعلان کر کے حکومت بہت بڑا کریڈٹ لینا چاہ رہی ہے اور جگہ جگہ اس چیز کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ ہماری حکومت صحافیوں کے لیے بہت اہم کام کیا۔یہ اپنی جگہ ایک اچھا فیصلہ ہے مگر معاشی عدم استحکام کی چکی میں پستے ہوئے صحافیوں کے لیے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ہزاروں لوگ اخبار کی صنعت سے وابستہ ہیں ،ان ہزاروں لوگوں سے جڑے ہوئے ان کے خاندان کی تعداد لاکھوں میں جا پہنچتی ہے۔اس بجٹ میں اخباری صنعت کے لیے خاطر خواہ سبسڈی کا اعلان ہونا چاہئے تھا ،جس کے ثمرات اخبار کی صنعت سے وابستہ افراد کو ملتے اور ایک عام صحافی کی معاشی حالت بہتر ہوتی۔اس وقت ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور ان کے پینشنرز احتجاج کر رہے۔ایسے تمام ادارے جو نئے زمانے کی تبدیلیوں کے سامنے زوال کا شکار ہو رہے ہیں، ان کو اپ گریڈ کرنا چاہیے۔ نئے ہنر سکھا کر اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ یہ ممکن نہیں ہے تو پھر ان کے معاشی تحفظ کے لئے کچھ اور اقدامات ہونے چاہئیں۔اس بجٹ میں یہ اعلان بھی ہونا چاہیے تھا کہ اختیار اور اہل اقتدار طبقہ کی مراعات پر کتنا کٹ لگایا گیا۔ پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسے سے دی جانے والی مراعات جو مختلف صورتوں میں حکومت اور حکومتی بندوبست میں شامل تمام افراد بیوروکریسی کے سرکاری افسران کو میسر ہوتی ہیں اس عیاشی کو فی الفور بند کرنا چاہیے۔پاکستانی کب تک اپنے ٹیکس کے پیسوں پر ان پیراسائٹس کو پالتے رہیں گے ۔پاکستان خوفناک معاشی مسائل کا شکار ہے اور پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سیاستدانوں کے بیرون ملک اور اندرون ملک دولت کے انبار لگے ہیں۔جب کہ عام پاکستانی کی حالت یہ ہے کہ اس کے پاس تین وقت مناسب کھانا کھانے کا انتظام کرنا سوہان روح ہوتا جاتا جارہا ہے۔غریب طبقہ کی قوت خرید تو ختم ہو چکی ہے۔ دال سبزی بھی خرید کر پکانا ان کے معاشی حالات پر بوجھ بنتا ہے۔ان غریب اور پسے ہوئے لوگوں پر حکمرانی کرنے والے کھرب پتی افراد اپنی دولت کا کچھ حصہ تو کم از کم پاکستان کے خزانے میں جمع کروائیں۔ پوری دنیا میں کشکول لے کر پھرنے والے پاکستان کو اس معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے اپنی تجوریوں کا منہ کیوں نہیں کھولتے ؟ اپنی دولت کا کم از کم دس فیصد ہی پاکستان کے خزانے میں جمع کروا دیں۔