نجانے ریشمی زلفوں والا گورچرن سنگھ کہاں ہوگا؟ کراچی کے ڈی جے کالج میں زردرنگ کی پگ دور سے ہی منفرد بناتی تھی ،شرمیلی سی مسکان اور مضبوط کاٹھی والا گورچرن سنگھ ملائیشین شہری تھاا ور وہاں سے یہاں پڑھنے آیا ہواتھا۔ اسکا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ یہاں پاکستان میں پڑھنے کیوں آیا بھارت کیوں نہ گیا ۔دنیا میں سب سے زیادہ سکھ تو وہیں ہی ہیں ، ایک دن میں نے اس سے یہ پوچھ ہی لیا کہنے لگا ’’بھائی جی!اوسانوں ویزہ نیئں دیندے فیر اے گورو نانک دی دھرتی ہے، میرے لئی تے اعزاز ہے کہ میں اتھوں ڈگری لے کر جاؤں۔ ‘‘ یہ بات 1989کی ہے بھارت میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کی آپریشن بلواسٹار نامی یلغار اور اس کے ردعمل میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو آنجہانی ہوئے پانچ برس ہوچکے تھے ان پانچ برسوں میں بھارتی سرکار خالصتان تحریک کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے جو کرسکتی تھی کرگزری تھی اور کررہی تھی وہ سکھوں کے حوالے سے بہت حساس تھی اسی وجہ سے اس کی فیملی نے اسے بھارت کے بجائے پاکستان بھیج دیا،گورچرن سنگھ پاکستان کو بہت مان دیا کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ یہ دھرتی ہمارے گرونانک کا جنم استھان ہے اورایک گورچرن ہی کیا دنیا کا کون سا سکھ ہو گا جو ننکانہ صاحب پر ماتھا ٹیکنا اور حسن ابدال میں پتھر پر نقش گرونانک کے پنجے کے درشن سے آنکھیں ٹھنڈی نہ کرنا چاہتا ہو؟ صرف سکھوں پر ہی کیا موقف یہاں تو جا بجا بدھ مت کی مقدس نشانیاں موجود ہیں، ٹیکسلا ، سوات، پشاور میں آج بھی بدھسٹ تہذیب کے آثار دنیا میں بدھ مت کے ماننے والوں کو اپنی جانب کھینچ سکتے ہیں ،یہاں چکوال میں ہندو ؤں کے دیوتا شیو جی کی اپنی بیوی ستی کی موت پر آنکھ سے نکلا آنسو تالاب کی صورت میں کٹاس مندر پر موجود ہے جو ہندؤں کے لئے گنگا جل سے کم نہیں۔ ان مقدس اورتاریخی مقامات کے باوجودآپ نے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر کتنے پگ دار سرداروں کو ٹیکسی یا گاڑی کی تلاش میں مصروف دیکھا ہے یاکبھی شیو جی کے اشک سے بننے والے مقدس تالاب میں اشنان کرکے پاپ دھونے کے لئے آنے والے ہندو یاتری دیکھے ہیں؟ دنیا میں506 ملین بدھسٹ دنیا کی آباد ی کاچھ فیصد ہیںان میں سے کتنوں کو ہم میں نے ٹیکسلا ،سوات پشاور میں اپنی تہذیب کے آثاروں پر منڈلاتے دیکھا ہے ؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اس مذہبی و ثقافتی سیاحت کی راہ میں دیوار برلن بنے ہوئے ہیں لیکن بدھ مت اور بیرون ملک سکھ مذہب کے ماننے والوں ، تاریخ میں جھانکنے کے متجسس لوگوں کو ہم موہن جو دڑو،ٹیکسلا اور سوات کیوں نہ لاسکے ؟ دنیا میں سکھوںکی تعداد 26سے 30ملین ہے ان میںسے 23ملین بھارت میں اور 3ملین یعنی تیس لاکھ دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں بڑی تعداد یورپ، کینیڈا ، امریکہ اور آسٹریلیا میںخوشحال زندگی گزار رہی ہے ہم ان تیس لاکھ سکھوں میں سے کتنے سکھ یاتریوں کو یہاں کھینچ لانے میں کامیاب ہوئے؟ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب ارغوانی رنگ کی چادر میں لپٹے بدھ مت کے مونکسوں کو اسلام آباد میں ہونے والی دوروزہ گندھارا کانفرنس میں دیکھا خوشی ہوئی کہ کسی نے اس جانب بھی توجہ تو دی ،ورنہ ہم تو وہ احمق ہیں جو میٹھے پانی کی جھیل کنارے حلق میںپیاس سے کانٹے لئے بیٹھے ہیں اوررو رو کرآنکھوں کا نمک اس میں ملارہے ہیں۔۔ دنیا میں سیاحت کمائی اور زرمبادلہ کا آسان طریقہ ہے۔ ترکیہ کو ہی دیکھ لیں اس نے سیاحت سے 2022ء میں 46.3 بلین ڈالرکمائے اور آئی ایم ایف نے ہمیں منتوں ترلوں واسطوں سفارشوں اور ساری شرائط منوانے کے بعد صرف تین بلین ڈالر دیئے جس پر ہم مبارکبادوںکے پیغامات دیتے اور بغلیں بجاتے نہیں تھک رہے، دنیا میں ایک سیاحت پیٹ بھرے کی مستی ہوتی ہے مان لیتے ہیں کہ ترکیہ جانے والوں کا شمار ان ہی میں ہوتا ہے لیکن اک سیاح وہ ہوتا ہے جو پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسے جوڑتا ہے اور روحانی تسکین کے لئے اپنے عقائد سے جڑے مقامات کا رخ کرتا ہے۔ ہمارے پاس دنیا میں بدھ مت کے ماننے والوں کو بلانے اور دکھانے کے لئے ایک دو نہیں درجنوں مقامات ہیں ،یہاں ٹیکسلا میں دوسری صدی میں بنایا گیا ۔دھرم راجیکا بدھ اسٹوپا،منکیالہ اسٹوپااوردوسری صدی عیسوی میں موہرامرادو شہرکے آثار ہیں یہ سب وہ کھنڈر ہیں جو ہماری کھنڈر ہوتی معیشت کوبچا سکتے ہیں ،بس ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ ہمارے پاس کیا خزانہ ہے لوگ کھنچے چلے آئیں گے ،لیکن سوال یہ بھی ہے کہ وہ کیا آنکھیں بند کرکے آئیں گے ؟اس سوال کے جواب کے لئے یہاں امن و امان کی صورتحال اور سیاحوں کے لئے دستیاب سہولتوں سے مل جائے گا ،امن نہ ہو تو آپ لاکھ پلکیں بچھائیں ،دیدہ ودل فرش راہ کئے رہیں کوئی نہیں آئے گا،سیاحوں کو سہولتیں دیجئے دنیامیں اب شائد ہی کوئی سیاح جیب میں نوٹوں کی گڈی ڈالے گھومتا ہو کریڈٹ کارڈسب کی جیب میں رکھا ہوتا ہے کیا یہ کریڈٹ کارڈ ٹیکسلا کی کسی دکان میں استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ ٹیکسلاکیا اسلام آباد میں بھی دس فیصد دکانوں پر بھی یہ سہولت نہیں ہے ،کیا ہمارے پاس ان مقامات کے حوالے سے معلومات رکھنے والے گائیڈز ہیں ؟ ٹرانسپورٹ ہے ؟ رہائش ہے ؟کاش کہ گندھارا کانفرس کے بعد پاکستان کے اصل حکمران اپنے بیربلوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سوالات کے جواب تلاش کریں او ر اس کام کا آغاز اسلام آباد سے ہی کریں جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے یہاں سے ٹیکسلا گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے رہنے کوچند ایک اچھے ہوٹل بھی ہیں،دیر نہ کی جائے ہنگامی بنیادوں پر جاندار آغاز کیا جائے ، جاپان،چین ،ہانگ کانگ،سنگاپور،جنوبی کوریا جیسے مالدار ممالک میں بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیامیں تو نوے فیصد سے زائد آبادی بدھسٹ ہے انہیں سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں ہمارا سافٹ امیج بھی بہتر ہوگا اور یقین مانیں چند برسوں میںکشکول بھی ٹوٹ جائے گا!