یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلا یہ دن ہمیںتاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے لیکن1971ء سے لیکر آج تک52سالوں میں ہم نے اس سانحہ سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں جمہوریت کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا ہاتھ تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے،بلکہ مزید ترقی بھی کر رہا ہے۔ پھر اس حوالے سے حمود الرحمن کمیشن بھی بنا جس نے 2سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی بنائی ، لیکن اس یقومی رازبنا کر رکھ دیا گیا ۔ 90کی دہائی میں اس کے کچھ حصے قومی اخبارات میں شائع ہوئے تو سنجیدہ حلقوں میں خاصی تشویش پائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں قائم اس کمیشن نے آئندہ سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ سے بچنے کے لیے چند سفارشات بھی پیش کی تھیں۔ لیکن اُن پر بھی آج تک عمل نہیں کیا گیا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا لب لباب یہ کہتا ہے کہ سیاستدان ہر گز کسی سرکاری ادارے کی سہولت کاری کا کام سرانجام نہ دیںکیوں کہ جب سہولت کار دستیاب ہوں تو پھر فیصلہ کرنے والوں کو شہہ ملتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے سہولت کاروں کو تاریخگواہ ہے کہ اُنہیں بنگلہ دیش میں نشان عبرت بنا دیا گیا، اُنہیں ابھی تک مہاجر کیمپوں میں رکھا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے بہت سے رہنمائوں کو پھانسی دی جا چکی ہے، اور بہت سے رہنما ابھی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں لیکن ہم نے اُن کے لیے کچھ نہ کیا۔ اسی طرح بھٹو جنہوں نے جنگی قیدیوں کو چھڑوا یا اور واپس مغربی پاکستان لائے ، بعد میں انہیںتختہ دار پر لٹکنا پڑا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے، اور نہ ہی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، ہم اگر اس قابل ہوجائیں تو یقینا ہم ترقی بھی کر لیں گے۔ کیوں کہ جس ملک نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے، اُس نے ترقی کی ہے، اور جس نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالا ہے وہ تاریک راہوں میں گم ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہمارے ہاں روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ’’اُلٹا چور کوتوال کو‘‘ کے مصداق ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اپنے لہجوں میں تکبر لے آتے ہیں۔ اسی تکبر کی وجہ سے ہم نے بڑے بڑے عظیم بنگالی جن میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، ایم ایم عالم جیسے رہنماء سر فہرست تھے، کو ضائع کیا اور انہیں صحیح جگہ استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ہم نے اُن کے ساتھ نا روارویہ روا رکھا، پھر1970کا الیکشن کروایا گیا، عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی، لیکن عوامی لیگ کو کسی سطح پر تسلیم نہ کیا گیا، زیادہ سیٹیں عوامی لیگ کی تھیں، لیکن ہم نے اسے اقتدار نہ دیا۔ اور جب انہوں نے اقتدار مانگنے کے لیے مظاہرے شروع کیے توسویلین کے کیسز کو بھی خصوصی عدالتوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ تاریخ کے اوراق پر ورق گردانی کرتے ہیں کہ آج کا دن 16دسمبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ جب یہ سانحہ ہوا تو اس کے اگلے روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔اس سانحہ میں اسٹیبلشمنٹ اپنی جگہ قصور وار تھی، سیاستدان اپنی جگہ۔ایک اور حیران کن امر یہ تھا کہ اس سانحے کے بعد صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہی نہ ہوئی تھی بلکہ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سینارٹی لسٹ میں اپنا نمبر چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ سبق جو اقتدار اور طاقت کے ایوان چلانے والوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا! قارئین !قوم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے بجائے اپنی غلطیاں درست کرکے آگے بڑھے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آئندہ سدھارنے کی کوشش کرے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ اُس وقت ہم سے جو غلطیاں ہوئیں،آج بھی اہم اُسی قسم کی غلطیاں کر رہے ہیں۔ اُس وقت ہم نے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق بنگال سے تھا کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ انہیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا، پھر ہم نے حسین شہید سہر وردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھ تھے اور بنگالی بھی تھے، ہم نے انہیں وزیر اؑظم بنایاا اور غدار کے خطاب سے نواز ۔یہ بالکل ایسے ہی جیسے ایک منتخب حکومت سے اقتدار لے کر اُنہی سیاستدانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزام ہیں۔ اور جس سے اقتدار لیا گیا، اُس کی اس قدر ڈھٹائی سے کردار کشی کی جا رہی ہے۔لہٰذا ایک بار پھر کہوں گا کہ ہم اگر اپنی غلطیاں مان لیں تو اس میں ہر ج ہی کیا ہے؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے اپنی غلطی تسلیم کی ، جرمنی نے بھی اپنی غلطی تسلیم کی دونوں آج بڑی طاقتیں بن چکی ہیں۔ انڈیا نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے، وہ آج دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، بنگلہ دیش جس نے ہم سے آزادی حاصل کی وہ ہم سے بہت بہتر ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اُن کے لہجوں میں تکبر نہیں ہے، ہم نے ہر جگہ مار کھائی ہے، ہمارے ہاں تو اُن سے صحیح معنوں میں کمیونیکیشن گیپ پایا جاتا ہے۔ اور پھر میرے خیال میں 1956ء کے آئین کو توڑنا ہی پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا سبب بنا تھا، حالانکہ شیخ مجیب الرحمن بھی اپنی تقریروں میں 1956ء کے آئین کی بحالی کی بات کرتے رہے۔ آج بھی ہر لمحہ 1973ء کا آئین ہر لمحہ خطرات کی زد میں رہتا ہے، کبھی کوئی اسے توڑ کر ایمرجنسی لگا دیتا ہے تو، کوئی اس میں من پسند تبدیلیاں کرکے نظریہ ضرورت کو فروغ دیتا ہے۔