ان کی طویل زندگی کا سفر یوں تمام ہوا کہ آخری وقت تک فن داستان گوئی کی آبیاری اور نئے ٹیلنٹ کی کاشتکاری کرتے رہے۔میں سوچتا ہوں ایک شخص اپنی زندگی میں اتنے شعبوں میں اتنے ڈھیر سارے کام کر سکتا ہے۔ وہ اتنے زندہ دل انسان تھے کہ ان کی موجود گی میںکوئی محفل سونی نہیں رہتی تھی۔ایک ایسا شخص جو اپنی قابلیت ’’علم‘‘ کے علاوہ اپنی باکمال گفتگو سے پہچانا گیا۔ان کا لہجہ ادائیگی اور تلفظ ہر انداز کمال کا تھا وہ اپنی ذات میں منفرد شخصیت تھے۔10روز کے وقفے میں تین بڑے لوگ رخصت ہوئے۔جنرل مشرف‘ امجد اسلام امجد اور اب ضیاء محی الدین۔ میںجب ضیاء صاحب کے معمولات زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک بوڑھا شخص جوانوں کی طرح مقررہ وقت گاڑی سے اس طرح اترتا کہ ان کی آمد پر گھڑیوں کا وقت درست کیا جا سکتا تھا۔ جب وہ لیکچر دیتے تو اپنی فہم اور مضمون کی روح کو سننے والوں کے ذہنوں میں انڈیل دیتے۔انہیں معلوم تھا کہ کسی بات کو کسی محفل میں کب اور کیسے کہنا ہے۔ان کی یہی خوبی تھی جس نے انہیں عالمی شہرت یافتہ فنکار بنا دیا تھا۔کلاسیکی شاعری اور دوسری تخلیقات اپنی آواز میں اس طرح پیش کرتے کہ سماں باندھ دیتے ۔ ضیاء صاحب اگر مردہ ادب کی کوئی تحریر پڑھ دیتے تو وہ زندہ ہو جاتی ۔20جون 1931ء کو فیصل آباد میں آنکھ کھولنے والے ضیاء محی الدین نے ایک بھر پور اور جاندار زندگی گزاری ۔تخلیقی خوبیوں سے لبریز اس کئی دہائیوں پر محیط سفر میں انہوں نے اتنا کچھ کر دکھایا کہ کسی ایک آدمی کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی ۔ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے اپنا بہت وقت انگلستان میں گزارا۔لندن کے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں تربیت حاصل کی۔اس موضوع پر ایک کتاب لکھی جو ایک ادبی شہ پارہ ہے۔ انہوں نے ایک اخبار میںمیں کالم لکھے۔ضیاء محی الدین نے ایڈورڈ مورگن فوسز کے مشہور ناول A Passage to indiaپر بننے والے اسٹیج ڈرامے میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ء میں بننے والی کلاسیکی فلم لارنس آف عربیہ سے کیا ۔کئی دوسری فلموں میں بھی کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔پاکستان میں ہدایت کاراسلم ڈار کی فلم ’’مجرم کون‘‘ میںبطور ہیرو کام کیا اور فرید احمد کی فلم ’’سہاگ‘‘ میں بھی کردار ادا کیا جبکہ ندیم اور شمیم آرا نے مرکزی ادا کئے ۔1973ء میں انہوں نے پی ٹی وی سے ضیاء محی الدین شو کا آغاز کیا ۔ انہوںنے مرزا غالب کے شعر جس انداز سے پڑھے انہیں اس میں بھی بہت شہرت ملی۔انہوں نے کلاسیکی ادب اور شعری ٹکڑے پڑھنے کے فن کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ان کی زبانی جس نے جو سنا اور جیسا سنا تو سچ پوچھیں جتنی بار سنا ان کی آواز اور انداز نے روح کو سرشار کر دیا۔ جب ضیاء صاحب نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، ریڈیونئی تخلیقات کے اظہار کا موثر میڈیم تھا ۔ یہ ریڈیو کا دور تھا ۔جس نے اپنی صلاحیتوں کو آزمانا ہوتا وہ اسی میدان میں اپنے جوہر دکھانے کی مشق کرتا۔فائن آرٹ اور پرفارمنگ آرٹ کا حصہ بننے کے لئے نوجوانوں کے لئے یہ فضا سازگار تھی۔یہی وہ دور تھا جب 20ویں صدی کے دوسرے نصف میں ضیاء صاحب نے خود کو منوایا۔ ضیاء صاحب کا کمال ہی یہ تھا کہ مغرب میں جہاں کسی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا انہوں نے خود کو منوایا کیونکہ اس میدان میں قدم رکھنا ایک طرح کا جوا تھا۔جس میں کامیابی کا امکان ففٹی ففٹی تھا۔وہ جس طرف بڑھتے اگلی منزل ان کے استقبال کے لئے تیار ہوتی۔ انہیں ایک اچھا اسٹیج اچھے استاد ‘اچھے ساتھی‘ اچھے حالات‘ اچھی روشنی ساتھ ساتھ اچھے سامع اور اچھے ناظر اور پھر اچھے مواقع میسر آئے اور اپنی تمامتر غیر معمولی قدرتی صلاحیت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ وقت حالات اور قسمت ان پر مہربان رہے۔جس شعبے میں قدم رکھا خود کو منوا کر ہی سرفراز ہوئے۔ ضیاء صاحب شیکسپیئر سے بہت متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ شیکسپیئر کے ڈراموں کی انہوں نے کمال مہارت سے ایسی ترجمانی کی کہ اگر شیکسپیئر خود سنتا تو حیران رہ جاتا۔ انہوںکسی کو خاطر میں نہ لانے والے گوروں سے بھی خود کو منوانا ۔ ضیاء صاحب ہی کا کمال تھا۔وہ ہر شعبے میں جہاں جہاں طبع آزمائی کی اپنے کام کو بڑھاتے چلے گئے اسٹیج پر جدید ٹیکنیک کی آمیزش اور نئے آرٹسٹوں کی دریافت کی کوششوں نے بھی ضیاء محی الدین کی خدمات کو چار چاند لگا دیے ۔وہ کیسے آرٹسٹ تھے اور کتنی محنت کرتے تھے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا کہ جب زبان‘ تلفظ اور ادائیگی پر وہ لوگ جو اپنی صلاحیت پر فخر کرتے لیکن جب ضیاء محی الدین کی کلاس یا محفل میں بیٹھتے تو ان کے کس بل نکل جاتے۔ ان کی صحبت میں رہ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اگر ڈائریکشن اچھی ہو تو بے جان میں بھی جان ڈالی جا سکتی ہے۔وہ کہتے تھے کہ ہم شاعری کو پڑھتے نہیں جھنجھوڑتے ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایات تھی کہ شاعری کو بغیر اعراب کے پڑھا جا رہا ہے۔ نئی نسل نے تو انہیں کبھی ریڈنگ کرتے نہیں سنا ان کا پڑ ھنے کاکمالِ انداز تھا جنہوں نے ان کی اداکاری کا دور نہیں دیکھا انہوں نے ان کے تذکرے ضرور سنے ہوںگے۔ ٹی وی پر ان کی پرانی جھلک بھی دیکھی ہو گی۔وہ کبھی کسی ٹی وی شو میں شریک ہوئے تو ان کی اردو کا کمال یہ ہوتا کہ کوئی بھی لفظ انگریزی کا استعمال نہ کرتے۔ضیاء محی الدین شو میں انہوں نے پی ٹی وی پر ایک عرصے تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ہمارے دوست اور ممتاز دانشور و محقق برادرم عبید اللہ بیگ کہا کرتے تھے کہ ضیاء صاحب واقعی آواز اور انداز کے جادوگر ہیں۔ضیاء صاحب کو شکوہ رہا کہ پاکستان میں ٹی وی پر غلط تلفظ بولا جاتا ہے۔ وہ ملک ‘مِلک اور مُلک کا حوالہ دیتے کہتے تھے کہ زبر زیر اور پیش سے لفظ اور معنی بدل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اتنے غلط لفظ پڑھے جاتے ہیں کہ کس کس کا رونا روئیں۔وہ کہتے تھے کہ پروفیشنلزم میرے لئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ ضیاء محی الدین نے تین شادیاں کیں جن سے ان کے چار بچے ہیں ان کی تیسری بیوی محترمہ عذرا کا تعلق شوبز انڈسٹری سے ہے ۔ محترمہ عذرا کی محی الدین سے شادی 1994ء میں ہوئی جن سے ان کی ایک صاحبزادی ہیں جو عموما انسٹا گرام پر اپنی گھریلو تصاویر شیئر کرتی رہتی تھیں۔70ء میں بھٹو صاحب کے دور حکومت میں انہیں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں ڈائریکٹر بنایا گیا۔ رقص میں کمال رکھنے والی ناہید صدیقی سے ان کی یہاں ملاقات ہوئی وہ یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں ۔کچھ عرصے بعد انہوں نے ناہید صدیقی سے شادی کر لی۔ ان کی پہلی بیوی کا نام سرور زماں تھا۔جن کے دو بیٹے ہیں۔ ضیاء محی الدین ہمہ جہت شخصیت تھے انہوں نے زندگی میں اتنا کچھ کر دکھایا کہ یہ خود معجزہ دکھائی دیتا ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے باکمال انسان کی اگلی منزلیں آسان کرے۔ ٭٭٭٭٭