بات ہے جب کہ بن کہے دل کی اسے سنا کہ یوں خود ہی دھڑک دھڑک کے دل دینے لگے صدا کہ یوں میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ مقام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں ذکر چراغ کا میں نے بے سبب نہیں کیا۔ ابھی اس پر بات کرتا ہوں ایک امر شعر فراز صاحب نے بھی تو کہا تھا مگر نہیں۔ وہ شمع کا تذکرہ تھا شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔ جی ہمارے دوست جمال احسانی نے آخری وقت میں ہمیں یہ شعر خود سنایا تھا۔ چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے۔ان کے اشعار تو اب بھی چراغ کی مثل جلتے ہیں روشنی دیتے ہیں آمدم برسر مطلب کہ ایک خبر نظر نواز ہوئی کہ برطانیہ میں ایک شخص فلپس نے ایک منٹ میں 55موم بتیاں بجھانے کا ریکارڈ بنایا۔ گویا بچپن چراغ گل کر دیے گئے۔ ایسے ہی دل میں آیا کہ اگر ایک منٹ میں 50چراغ روشن کئے جاتے تو ہمیں اچھا لگتا شاید یہ کام آسان بھی ہوتا ہے مگر ہماری رغبت اور رجحان گل کرنے کی طرف زیادہ ہے۔اس کے ساتھ ہی ظہیر کاشمیری سے ہم سنتے تھے ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔مگر ایک استاد کا شعر بھی ہمیں شہزاد احمد نے سنایا تھا۔ چراغ آخر شب اس قدر اداس نہ ہو تمہارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔مگر مشہور شعر بھی تو ہمارے حافظے کا حصہ ہے کہ اسے میر سے منسوب کیا جاتا ہے وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔محبوب بھی تو چراغ بجھانے کا کام ہی کرتا ہے ویسے ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہے اپنی نہیں جلائی دوسرے کی بجھائی ہے۔ یہ کام ہمارے سیاستدان بطریق احسن کرتے ہیں یہاں ہمیں اپنے پیارے دوست جلیل عالی کا شعر کیوں یاد نہیں آئے گا: اپنے دیے کو چاند بتانے کے واسطے بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے آسمان پر بھی تو اللہ نے چراغ روشن کئے ہیں، آسمان کتنا سونا سونا ہوتا اور تاریک بھی۔ چراغ کا تذکرہ چلا تو میں منیر سیفی کا تذکرہ ضرور کروں گا: جلا بھی شدت جاں سے بجھا بھی شان سے تھا وہ اک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا برطانیہ کے فلپس نے تو چراغ یا موم بتی بجھانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے مگر ادھر ہمارے حکمران تو عوام کے چولہے بجھانے کا اہتمام کر رہے ہیں اور یہ چولہے بھی فی منٹ کے حساب سے بجھ رہے ہیں۔ مہنگائی روز افزوں ہے وہی جو کہتے ہیں دن دگنی اور رات جگنی۔ جس کا جی چاہتا ہے اس گنگا میں نہانے جا رہا ہے۔نہ قانون کا ڈر اور نہ کسی حکمران کا۔ حکمران خود بھی شرمندہ شرمندہ ہیں شاید میں غلط لکھ گیا وہ تو شرم سے یکسر دور ہیں بہرحال وہ آنکھیں چرا رہے ہیں کہ عوام پر ڈاکے مارے جا چکے ہیں اب دیکھیے گیس کی قیمتوں میں 10.6فیصد سے 12.4فیصد اضافہ ہوا ہے پھر مزے کی بات یہ کہ ساتھ ہی وضاحت دی جاتی ہے کہ اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا۔ عام آدمی ہی کو فرق پڑ سکتا ہے کہ وہی حکمرانوں کے لئے خاص آدمی ہے۔ ٹیکس لینے والے انہی پر چڑھ دوڑتے ہیں بلکہ ہر بکنے والی چیز پر ٹیکس ہے بڑے لوگ تو ٹیکس نہیں دیتے ایک زمانے میں نواز شریف بھی صرف 5000روپے ٹیکس دیتے تھے۔ ابھی تو منی بجٹ آیا ہے بس اس کا نام ہی منی کے کام تو یہ بڑا ہے کہ اس سے حکومت نے اپنا خزانہ بھرنا ہے اور یہ عوام کی جیبیں خالی کر کے بھرنا ہے۔ دیکھا جائے تو حکومت اپنا چراغ جلانے کی کوشش کر رہی ہے اور اپوزیشن یعنی عمران خاں اپنے چراغ کو بجھنے سے بچا رہے ہیں۔فراز یاد آئے کہ میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے کہ ہوا کسی کی نہیں یہی بات تو مشاہد اللہ کہا کرتے تھے کہ یہ ہوا کسی کی نہیں ان کے الفاظ مختلف تھے کہ یہ سب روئیں گے اور انہیں چپ کرانے والا بھی کوئی نہیں ہو گا اگر چپ کرائیں گے تو وہ کرائیں گے۔ اللہ مشاہد اللہ واسطی کو غریق رحمت کرے بات اصل میں ہے کہ سورج کے سامنے چراغ بھی تو جلتا نہیں جاتا یا جلے بھی تو بے کار۔ سب چراغ بجھا دیے جاتے ہیں سوائے رونے پیٹنے کے کچھ نہیں بچتا۔ وہی جو توقیر نے کہا تھا کچھ دیر تو اٹھتا ہے چراغوں سے دھواں بھی۔ویسے میں بھی کمال ہوں کہ ان لوگوں کے لئے چراغ کا استعارا استعمال کر رہا ہوں چلو کوئی بات نہیں ان میں اچھے لوگ بھی تو گزرے ہیں جو سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔تب سیاست جھوٹ کے مترادف نہیں تھی اب تو سب کے سب سچ سے بے نیاز ہو چکے ہیں بہرحال جب کوئی کسی کے اختیار میں ہوتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا یہاں ایک شعر کومل جوئیہ کا بھی لکھنا ہی پڑے گا کہ وہ مجموعی طور پر رویوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے تم لوگ منافق ہو منافق بھی بلا کے اگر چراغ سے چراغ جلایا تو پھر یہ سلسلہ دور تک جائے گا۔وہ شعر کس کو ازبر نہیں کہ ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائت کیسی۔ یہ شعر عبید اللہ علیم کا ہے جو بھی ہے ہم نے کالم کو شاید میلہ چراغاں ہی بنا دیا ہے چراغاں کسے اچھی نہیں لگتی۔مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے۔ بزم چراغاں کئے ہوئے کہ کوئی راہی بھٹکے نہیں۔ہم تو اپنی قبروں پر دیے جلاتے چلے جا رہے ہیں خود غرضی اور خود پرستی خود پر بے مقصد ہی اشیا کا تصرف کرتے چلے جا رہے ہیں دوسروں کا سوچنا ہی اصل نیکی اور اچھا کام ہے مزہ تو تب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقی۔ کالم کا اختتام تو اسی خبر سے کرتے ہیں کہ گیس 112فیصد مہنگی ہو گئی ہے تو چولہا کیسے چلے گا یہاں گیس نہیں وہاں اور بھی زیادہ مشکل ہے لکڑی بہت مہنگی اب بیٹھے دل جلائیے۔ قتیل شفائی کا شعر: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا