یہ سچ ہے کہ سیاست میں کوئی بھی مستقل دوست اور مستقل دشمن نہیں ہوتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں ایسا مذاق بھی نہیں ہونا چاہیے جیسا عام طور پر ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں اور خاص پر سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے شروع کر رکھا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب متحدہ قومی موومنٹ نے پورے کراچی میں یہ بینر آویزاں کیے تھے کہ شہری سندھ میں وڈیروںاور جاگیرداروں کی حکومت نامنظور۔ اس کے جواب میں پیپلزپارٹی کے رہنما ایم کیوایم کو دہشتگردی کی بنیاد رکھنے والی اور عوام دشمن جماعت قرار دے رہے تھے مگر جب مفاد کا وقت آیا تو ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح کل کے دشمن اپنے سیاسی اور نظریاتی اختلاف بھول کر ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔اب پیپلز پارٹی کی قیادت کہہ رہی ہے کہ ایم کیو ایم کے مطالبات جائز ہیں اور ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کرنے کو تیار ہوگئی ہے۔حالانکہ اب تک کراچی کے لوگ وہ مناظر نہیں بھولے جب ایم کیو ایم کے احتجاج کا رخ چیف منسٹر ہاؤس کی طرف موڑ دیا تھا اور پولیس ریڈزون کی حفاظت کرتے ہوئے ایک طرف آنسو گیس کے شیل پھینک رہی تھی اور دوسرے طرف کچھ ایم کیو ایم کے کارکن پٹتے اور کچھ گھسٹتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لڑنے اور صلح کرنے کی روایت نئی ہے مگر اب نہ توپیپلز پارٹی وہ پیپلزپارٹی رہی ہے جوہوا کرتی تھی اور نہ ایم کیو ایم وہ ایم کیو ایم رہی ہے جس کا نام خوف کی علامت تھا ۔ ایک جماعت ذرا آگے نکل آئی ہے اور دوسری ذرا پیچھے چلی گئی ہے مگر ان کے تیور آج بھی ویسے ہیں جیسے پہلے ہوا کرتے تھے۔ آج بھی ایم کیو ایم اپنے ماضی پر فخر کرتی دکھائی دیتی ہے اور آج بھی پیپلز پارٹی بی بی شہید کے مشن کو مکمل کرنے کا اعلان کرنانہیں بھولتی۔ سندھ کی سیاست میں پی پی اور ایم کیو ایم کبھی آپس میں یوں ملتی رہی ہیں کہ جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے بنی تھیں اور کبھی آپس میں یو ں لڑتی ہیں جیسے ان کے درمیاں دوستی کا تذکرہ بھی ممکن نہیں ہوگا ۔ سندھ کے لوگ دہائیوں سے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی انہوں نے اپنے لب آزاد نہیں سمجھے اور اس مکروفریب کی سیاست کواس نے کبھی اس طرح سے چیلینج نہیں کیا جس طرح ایک باشعوراور سیاسی طور پر سمجھ رکھنے والے عوام کو کرناچاہیے۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے سیاسی تسلسل اوراس کی سیاسی کامیابی کے بارے میں یہ موقف رکھتی آئی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اصل میںجاگیردار اور وڈیروںپر مشتمل ہے اور سندھ کے دیہی عوام یا تو تعلیم سے محروم ہیں یا ان سے خوف زدہ ہیں اس لیے وہ منہ نہیں کھولتے۔جب کہ یہ سوال تو اہلیان کراچی کے بارے میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب کراچی میں برسوں سے بسنے والے لوگ بہت باشعورہونے کے باجود بھی نفرت اور تعصب کی سیاست کے خلاف بغاوت نہیںکرتے تو پھر دیہاتوں میں رہنے والے بیچارے مظلوم کسانوں اور ان کے رشتہ داروں پر کیسا الزام لگ سکتا ہے؟ متحدہ کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور رہا ہے کہ اس نے سیاست میںمنافقت کومکمل آزادی دے رکھی ہے مگر کیا یہ الزام صرف ایم کیو ایم پر لگانا درست ہے؟ کیا پیپلز پارٹی نے وہ سب نہیں کیا،جو اس کے قول اور فعل میں تضاد کا ثبوت ہے؟ ایم کیو ایم نے ہمیشہ سندھ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ پیپلز پارٹی کو قرار دیا ہے اور پیپلز پارٹی کا موقف رہا ہے کہ کراچی میں مسائل کا سبب متحدہ ہے۔ اب جب یہ دونوں جماعتیں عمران خان کی حکومت کو گرانے اور مل کر حکومت چلانے کے لیے مل رہی ہیں تب کیا اس اتحادی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرنا مناسب سمجھیں گی کہ انہوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں سچ بولا تھا یا انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا؟ سیاسی پارٹیوں کا کام صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار میں آئیں اور مال کمائیں۔ ایک دور میں تو سیاست کے ذریعے امیر ہونے کے تصور سے بھی نفرت کی جاتی تھی مگر اب سیاست اور دولت کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والا تعلق پیدا ہوگیا ہے مگر اس کے باوجود بھی یہ بات ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ سیاست اورتجارت میں فرق ہواکرتا ہے۔ حالانکہ اس بات کا یہ مطلب نہیں لینا چاہئیے کہ تجارت میں سب کچھ جائز ہوا کرتا ہے۔ تجارت ایک بہت اہم شعبہ ہے اور تجارت میں اگر ہم ایمانداری کو چھوڑ دیں توتجارت تجارت نہیں بلکہ ایک جرم بن جایا کرتی ہے۔ ہمیں یہ بات کسی طور پر فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ تجارت کے بھی اصول ہوا کرتے ہیں مگر اپنے ملک کی بے اصول سیاست کو دیکھ کر کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کاش! ہماری سیاست میں صاف شفاف تجارت جیسے اصول بھی ہوتے تو یہ بہت بڑی بات ہوتی مگر اب سیاست میں ایسا کچھ نہیں رہا اور یہ سب کچھ دیکھ کر ہمیں خیال آتا ہے کہ تجارت اس لیے نہیں کی جاتی کہ اس سے ملک کے نسل نو کی تربیت ہو مگر سیاست کا اہم ترین فرض یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے ملک کی آنے والی نسل کو رہنمائی ملے اور وہ بہتر شہری بن کر دنیا کا حصہ بن جائیں مگر اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسی سیاست عام طور ہمارے ملک میں ہو رہی اور جس سیاست کا پرچم صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اٹھایا ہوا ہے۔اس قسم کی سیاست سے نسل نو کو کیسا پیغام مل رہا ہے؟کیا ایسی سیاست ہماری آنے والی نسل کو بنانے کے بجائے بگاڑ نہیں رہی؟سیاسی رہنما تو عوام کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔لوگ عملی زندگی میں ان کی پیروی کرتے ہیں۔اگر اس ملک کے عام لوگ بھی آصف زرداری، نواز شریف ،مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کے قائدین کی طرح بن جائیں تو پھر ہم اس کے نتیجے میں ملک پر پڑنے والے منفی اثرات کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں؟ سیاست کسی بھی ریاست کا اہم ترین شعبہ ہواکرتا ہے۔ سیاست میں لوگوں کو بہتر شہری بنانے کی تربیت دینا ضروری ہوتا ہے۔ سیاست میں شہریوں کوملک دوست بننے کی تعلیم اور تربیت دینا اہم ترین فرض ہے۔ اگر ہمارے شہری بھی ہمارے سیاستدانوں کی طرح کسی بھی قول پر قائم نہ رہنے کی قسم کھالیں تو پھر اس معاشرے کا کیا ہوگا؟ کیا کوئی بھی معاشرے اعتماد اور اعتبار کے بغیر چل سکتا ہے؟ کیا کسی معاشرے کا مستقبل اس بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ اس میں کوئی اصول نہ ہوں؟ جس میں دوست اور دشمن بنانے کے کچھ معیار نہ ہوں۔ جب فائدہ محسوس ہو تودوست بنالیں اور جب نقصان کا خوف لگے تو دشمن ظاہر کرلیں۔ دوستی اور دشمنی بھی انسان سے بہت کچھ مانگتی ہے۔ دوستی اور دشمنی کے تقاضے ہوتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کوئی کھیل نہیں کہ جب جی چاہا تب دوست کو دشمن کہہ دیا اور جب جی چاہا تو دشمن کو دوست قرار دیا۔ سیاست نے اس قسم کے کھیل کو جس طرح معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے اس سے معاشرہ تباہ ہوجائے گا۔ کیوں کہ معاشرہ دوست اور دشمن کی تمیز کے بغیر نہ تو جنم لے سکتا ہے اور نہ قائم رہ سکتا ہے۔