نجی کمپنی سے سود پر قرضہ لینے کے بعد سود در سود کے جال میں پھنسنے والے ایک شہری کی خود کشی نے معاشرے میں ارتعاش برپا کیا ہے۔ کئی لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ مملکتِ خداداد میں سودی کاروبار کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ سودخوروں کے خلاف اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اعلانِ جنگ کیا ہے۔ رسول اللہﷺنے طائف کا محاصرہ کیا اور بعد میں وہاں کے لوگوں نے دار الاسلام کا حصہ بننے کے لیے شرائط رکھیں تو آپ نے ان کی یہ شرط قبول نہیں کہ وہ سودی لین دین برقرار رکھیں گے۔ اسی طرح اہلِ خیبر اور اہل ِ نجران کے ساتھ معاہدے میں آپ نے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ سودی لین دین نہیں کریں گے۔ علامہ محمد اقبال نے جب قائدِ اعظم محمد علی جناح کو انگلستان سے واپس آکر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر قائل کیا تو انھیں خصوصاً یہ بھی بتایا کہ یہاں کی معیشت پر ہندوساہوکار نے سود کے ذریعے قبضہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جولائی 1948ء میں جب قائدِ اعظم نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تو اسلامی معاشی نظام کے لیے کام کرنے پر خصوصی زور دیا۔ 75 سال بعد بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا اور پاکستان میں نہ صرف بینکوں کے ذریعے اور حکومتی سطح پر سود کا آسیب مسلط رہا ہے، بلکہ طویل عرصے تک 1960ء کے ایک آرڈی نینس کے تحت انفرادی اور نجی سطح پر بھی ساڑھے سات فی صد سالانہ تک شرحِ سود کی قانونی طور پر باقاعدہ اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون کی منسوخی اور نجی قرضوں پر سود کے خاتمے کے لیے خیبر پختون خوا میں میرے والدگرامی جناب اکرام اللہ شاہد نے 2005ء میں ،جب وہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے، اسمبلی میں ایک بل پیش کیا۔ یہ بل دو سال تک سٹینڈنگ کمیٹی میں اس لیے معلق رہا کہ محکمہ قانون، محکمہ خزانہ اور محکمہ داخلہ کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔ بڑی مشکلوں سے اس بل کو سرد خانے سے نکال لانے میں کامیابی ہوئی اور اسے جولائی 2007 ء میں اسمبلی نے بالاتفاق منظور کرلیا۔اس قانون نے نجی سودی کاروبار کو قابلِ دست اندازیِ پولیس، ناقابلِ ضمانت اور ناقابل ِ صلح جرم قرار دیا۔ اسی سال اسی نوعیت کا ایک قانون پنجاب اسمبلی نے بھی منظور کیا۔2014ء میں یہی قانون بلوچستان اسمبلی نے بھی منظور کیا۔ 2012ء میں ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران میں پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب جسٹس دوست محمد خان نے اس امر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ نجی قرضوں پر ظالمانہ سود وصول کیا جارہا ہے اور اس کی روک تھام میں حکومت اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔ (اس وقت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی از خود نوٹس لینے کا خصوصی شوق تھا۔) جب اخبارات میں ان کے یہ ریمارکس آئے تو ابتدا میں مجھے یہی خیال آیا کہ شاید انہیں معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا ہے کہ 2007ء میں نجی سودی کاروبار کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ہائی کورٹ کے متعلقہ آرڈر شیٹ نکال لینے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ وہ نہ صرف اس قانون سے باخبر تھے بلکہ وہ تو دراصل "مناسب شرحِ سود" کی اجازت دلوانا چاہتے تھے!چنانچہ ان کے احکامات کے بعد نیا مسودہ قانون بنانے کے لیے مختلف محکموں کے سیکریٹریوں کی جو میٹنگ ہوئی، اس کے منٹس میں بھی قرار دیا گیا کہ 2007ء کا قانون اس لیے ختم کرنا چاہیے کہ اس نے "مناسب شرحِ سود" کو بھی ممنوع کردیا ہے؛ اور یہ کہ ایسا قانون ہونا چاہیے کہ مناسب شرحِ سود جائز ہو اور ظالمانہ شرحِ سود جرم ہو ! یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ آئین کی رو سے قانون سازی اسمبلی کا کام ہے، نہ کہ ہائی کورٹ کا۔ البتہ جب اسمبلی قانون منظور کرے تو ہائی کورٹ اس کا جائزہ لے سکتی ہے کہ کہیں وہ آئین سے متصادم تو نہیں اور اس کے بعد وہ آئین سے تصادم کی حد تک اسے کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ تاہم ہائی کورٹ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ قانون سازی کے خدوخال متعین کرکے اسمبلی کو کوئی مخصوص مسودہ قانون منظور کرنے پر مجبور کرے۔ بہرحال امیر حیدر ہوتی کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے 7 مارچ 2013ء کو اسمبلی میں نیا بل پیش کیا لیکن اس کی منظوری سے قبل ہی اسمبلی کی مدت پوری ہو گئی۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی نئی حکومت پر بھی ہائی کورٹ کی جانب سے دباؤ برقرار رہا۔ چنانچہ وزیرِ خزانہ جناب سراج الحق کے دستخطوں سے اسمبلی میں بل پیش کیا گیا اور جب ہم نے اس کا مسودہ حاصل کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی نیشنل پارٹی والا بل ہے جس میں 8 فی صد تک سود کی اجازت دی گئی تھی۔ میں نے اس پر تنقیدی تبصرہ لکھا جسے ماہنامہ "الشریعہ" نے جون 2014ء میں شائع کیا، تو اس مسودے پر جماعت اسلامی کے حلقوں سے بھی شدید تنقید ہوئی۔ چنانچہ ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی جس میں میرے والد صاحب کو بھی شامل کیا گیا (جو اس وقت اسمبلی کے رکن نہیں تھے)۔ کمیٹی نے اس مسودے سے قابلِ اعتراض شقیں ختم کرکے ایک اور مسودہ بنا لیا جس کی تیاری میں استادِ محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کی خصوصی رہنمائی شامل تھی۔جب اسے سٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کیا گیا تو اعتراض ہوا کہ بہت زیادہ تبدیلیوں کے بعد اب اسے نئے مسودے کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور کمیٹی اسے منظور نہیں کرسکتی بلکہ اسے نئے سرے سے اسمبلی میں پیش کرنا ہوگا۔پی ٹی آئی کے رہنما جناب سیف اللہ خان نیازی کی مداخلت اور سپیکر جناب اسد قیصر کے پرسنل سٹاف آفیسر جناب عابد ابرار کی تجویز پر مجھے خصوصی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور میں نے اسمبلی رولز کی روشنی میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دے دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی یہ معاملہ معلق رہا۔ 2016ء میں اسمبلی کے سیکرٹری جناب امان اللہ نے مجھے فون کیا اور کہا کہ کمیٹی نے تو یہ کام نہیں کرنا، اس لیے اگر آپ ہمیں اس مسودے کی نقل دے دیں، تو ہم نے بعض ارکان اسمبلی سے بات کی ہے جو اسے نئے مسودے کے طور پر پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے فوراً ہی انہیں مسودہ بھیج دیا جسے بعض ارکانِ اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ یہی قانون بعد میں جماعتِ اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے سینیٹ میں پیش کیا اور سینیٹ و قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ اسلام آباد میں نافذ ہوگیا۔ پھر پچھلے سال اسے پنجاب اسمبلی نے بھی منظور کرلیا اور نجی سود میں جکڑے ایک شخص کی خود کشی کے بعد 17 جولائی 2023ء کو سندھ نے بھی یہ قانون منظور کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد بھی آخر نجی سطح پر سود کا کاروبار کیسے چل رہا ہے اور اسے روکنے کے لیے قانون کو کیسے مؤثر بنایا جاسکتا ہے؟