اس سال اپریل میں ہو نے والی حکومت کی تبدیلی( ( REGIME CHANGE نے پاکستان کی سیاست کو ایک بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔یہ تبدیلی سیاسی ،قانونی یا آئینی طور پر کتنی ہی درست کیوں نہ ہو ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس تبدیلی سے پاکستان کی پہلے سے موجود مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بات بھی اگرچہ درست ہے کہ عمران خان کی حکومت جن دعووں اور وعدوں کے ساتھ 2018 میں قائم ہوئی تھی وہ انہیں اپنے پونے چار سالہ دور میں میں پورا کرنے سے قاصر رہی۔ اپنی اس کارکردگی اور روزانہ کی بنیاد پر بدلتے ہوئے بیانات کے باعث اس کی سیاسی مقبولیت بھی بتدریج کم ہونا شروع ہو چکی تھی ۔سابقہ حکومتوں کی کرپشن جو عمران خان کا مضبوط سیاسی بیانیہ تھا اور جس کی بنیاد پر وہ الیکشن میں کامیاب بھی ہوئے تھے اپنے پورے عرصہ ء اقتدار میں وہ اسے ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔ قومی احتساب ؔ بیو رو ( BUREAU NATIONAL ACCOUNTABLITY) جس کا عمران خان کی حکومت کے پورے دورانئے میں بڑا چرچا رہا ۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کسی بھی مقدمے میں نامزد ملزمان کو سزائیں دلانے میں ناکام رہا۔عمران خان کے دیگر انتخابی وعدوں اور دعووں سے قطع نظر ان کی حکومت اگر احتساب کرنے میں ہی حقیقی طور پر کامیاب ہو جاتی تو بلا شبہ یہ ان کی بڑی کامیابی ہوتی مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ ان کی حکومت اور دیگر سیاسی قائدین نے ا حتساب کے معاملے کو قانونی سے زیادہ سیاسی بنائے رکھا جس کا فائدہ بالآخر ان ہی کو ہوا جن کا احتساب کرنے عمران خان بڑے طمطراق سے چلے تھے۔حکومت کی تبدیلی کا عمل اگرچہ کہا یہ گیا کہ سیاسی عمل کا نتیجہ تھا مگر واقعہ یہ ہے کہ ایسا سمجھا کسی بھی سطح پر نہیں گیا۔ پاکستان کی سیاست میں ایک منتخب حکومت کو اپنا دورانیہ مکمل نہ کرنے کی بد قسمت روایت اس حکومت کے ساتھ بھی برقرار رہی۔یہ تبدیلی کیوں ضروری سمجھی گئی ، اس سے کس کو فائدہ ہوا اور کس کو نقصان ۔ سر دست اس کا جائزہ پیش نظر ہے۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی غیر جمہوری اور غیر سیاسی روش پاکستان کے سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے سیاسی حکومت ابھی اپنے پائوں جمانے بھی نہیں پاتی اسے اکھاڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی حکومت کو اپنے تحفظ اور بچائو کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔اور اسے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے سازگار سیاسی ماحول نہیں مل پاتا۔اور یوں بتدریج اس کی سیاسی مقبولیت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے یہی وہ موقع ہوتا ہے جب حکومت مخالف قوتیں حکومت گرانے کے لئے مجتمع ہو کر اپنی کوششیں تیز کردیتی ہیں اور پھر منظر اور پس منظر میں موجود قوتیں فیصلہ سازی میں شریک ہو کر ایک سیاسی اور منتخب حکومت کو اس کی مدت کی تکمیل سے پہلے ہی فارغ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔1985 سے 2022 تک کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا ۔کبھی وزیر اعظم سمیت پوری اسمبلی نشانہ بنتی ہے تو کبھی محض وزیر اعظم کی برخواستگی پر ہی اکتفا کر لیا جاتا ہے۔اس پورے سیاسی اور حکومتی عدم استحکام میں پس منظر میں موجود غیر سیاسی قوتوں کی اثر انداز ہونے کی اہلیت سے قطع نظر ہماری گفتگو کاارتکاز سیاست دانوں کے ان غیر ذمہ دارانہ رویوں پر ہے جن کے باعث کسی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اس کے عدم استحکام کے لئے سیاستدان سر گرم عمل ہو جاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں حکومت کے عدم استحکام کے ساتھ ساتھ پورا سیاسی نظام ہی کمزور ہو جاتا ہے ۔ سیاسی ادارے کمزور ہوں گے تو سیاسی نظام میں سیاست دانوں کی حیثیت بھی کمزور ہوتی ہے جس کا فائدہ لا محالہ غیر سیاسی قوتوں کو ہی حاصل ہو جاتا ہے سیاست دان آسانی سے سیاسی بحران تو پیدا کرلیتے ہیں مگر اس سے نمٹنے کی اہلیت کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔اور پھران کے حل کے لئے سب کی نظریں ان ہی غیر سیاسی قوتوں کی طرف اٹھنے لگتی ہیں جن سے بظاہر سب شاکی ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ کہنے اور دیکھنے میں تو یہ عمران خان مخالف تمام ہی سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے مگر یکسوئی اور یگانت سے محروم۔ نہ اس میں فکری اتحاد ہے اور نہ ہی اشتراک عمل کی کسی ٹھوس بنیاد کا وجود۔بادی النظر میں اتحادی حکومت کے قیام کے جو مقاصد تلاش کئے جا سکتے ہیں ان میں پہلا اور اہم مقصد عمران خان کی وفاقی حکومت کو ہر قیمت پر ختم کرنا تھا۔دوسرا اہم مقصد قومی احتساب بیورو ( نیب )کے قوانین کو تبدیل کرنا تھا تاکہ بدعنوانی کے جو مقدمات نیب میں زیر سماعت تھے ان سے اتحادی حکومت میں شامل سیاست دانوں کو چھوٹ مل سکے۔ موجودہ وفاقی حکومت ان دونوں مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی۔ مگر کس قیمت پر اس کا صحیح ادراک تو اگلی کسی حکومت کی چارج شیٹ کے اجراء سے ہی ہو پائے گا۔مگر اب تک کی جو صورت حال جس کا ذکر ہوا ہے اس کے مطابق یہ تبدیلی ریاست اور اس کے عوام کے لئے مفید ثابت نہیں ہوئی۔سیاسی محاذآرائی اور اس کا تسلسل مشکلات میں گھری پاکستانی ریاست کے لئے کسی بھی طرح مثبت سیاسی عمل نہیں۔یہ بات سیاست دان بھی خوب جانتے ہیں اور دیگر مقتدر حلقے بھی اس سے بے خبر نہیں۔اقتدار کی اس کشمکش سے عو ام کی محرومیوں میں تو اضافہ ہی ہونا تھا سو وہ خوب ہوا۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر ا تحادی حکومت کو عوامی تائید اور حمایت تو خیر کیا ملنا تھی خود حکومت میں شامل جماعتیں سیاسی پشیمانی کا شکار نظر آتی ہیں اور عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ ا تحادی حکومت کی یہی وہ بنیادی کمزوری ہے جس کا فائدہ عمران خان اٹھانا چاہتے ہیں۔ فکر اگر نہیں ہے تو عوام کے مفادات کے تحفظ کی ، ریاست کے مستقبل کی اور گھمبیر ہوتے مسائل کو حل کرنے کی۔مگر کب تک ؟ صورت حال کا یہ استقرار زیادہ دیر تک نہیں رہنا چاہیئے۔ سیاست اور ریاست کے لئے یہ ہی بہتر ہے ۔