آج  بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کا 70 واں یوم وِصال ہے۔ اندرون اور بیرونِ پاکستان ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ اپنے اپنے اندازمیں ’’ بابائے قوم ‘‘کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ 28 جولائی 2017ء کے ’’ عدالتی انقلاب‘‘ ( Judicial Revolution) کے بعد جب، سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گُلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل پانچ جج صاحبان نے وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی دفعہ ’’62-F-1 ‘‘ کے تحت صادق ؔاورامینؔ نہ (ہونے) پر تا حیات نا اہل قرار دے دِیا تو، اُس وقت ہی ’’ ایک نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر کا آغاز ہوگیا تھا۔

اپنے مختصر دورِ وزارتِ عظمیٰ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ن لیگیوں نے ، عدالتی انقلاب سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی سابق صدر زرداری اور اُن کی پارٹی کے لوگوں نے جس، کے نتیجے میں ، 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں عمران خان اور اُن کے اتحادیوں کا بول بالا کردِیا۔ مسلم لیگ (ن) اور ( پی ۔ پی۔ پی۔ پی) کے قائدین جیل اور احتساب کے شکنجے میں ہیں۔’’عدالتی انقلاب ‘‘ کا "Law Roller" ۔ تیز رفتار ہوگیا ہے ۔ نااہل وزیراعظم نواز شریف کے ’’یارانِ نظریاتی ‘‘ بلوچ گاندؔھی ، عبداُلصمد اچکزئی کے فرزند ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ’’سرحدی گاندھی‘‘ خان عبداُلغفار خان کے پوتے ، اسفند یار خان ولی اور ’’ کانگریسی مولویت ‘‘ کی باقیات  قائداعظمؒ اور مادرِ ملّت ؒکے مخالف مفتی محمود (مرحوم) کے بیٹے فضل اُلرحمن صاحب قومی اسمبلی سے "Out" ہوگئے ہیں۔ 

پہلی بار ، صدر ِ پاکستان عارف علوی اور وزیراعظم ، جناب عمران خان وفاق اور صوبوں میں دھڑلے سے یوم وِصال  قائداعظمؒ منا رہے ہیں ۔ قائداعظمؒ ، علامہ اقبالؒ اور مادرِ ملّت ؒ کے افکار و نظریات کے مطابق ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے علمبردار تو ، اپنے عظیم قائدین کو کبھی بھولتے ہی نہیں ۔ مجھے بتایا گیا کہ’’ آج(11 ستمبر کو ) قائداعظمؒ کے شایانِ شان سب سے بڑی تقریب لاہور میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے‘‘ (ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان) پر ہوگی جس، میں ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ میں جنابِ مجید نظامی کے ساتھی اورعقیدت مند تقاریر کریں گے۔ 

پاکستان میں دوسری تقریب اسلام آباد میں ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے 94 سالہ کارکن، بابا غلام نبی بختاوری کے فرزند چیئرمین ’’پاکستان کلچرل فورم اسلام آباد‘‘ برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے زیر اہتمام منعقد ہوگی جس، میں نامور ’’مشاہیر پاکستان‘‘ خطاب فرمائیں گے۔ معزز قارئین!۔ قائداعظمؒ ، علاّمہ اقبالؒ ، مادرِ ملّت ؒ ، شہید ملّت ، خان لیاقت علی خان کی سالگرہ / برسی کے علاوہ 6 ستمبر کو ’’ یوم دفاع و شہدا‘‘ کی تقاریب کا انتظام و انصرام ۔ اکثر سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگوکے پاکستانی نژاد ’’ پاکستان فورم برطانیہ‘‘ کے صدر ’’ بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی اور اُن کے دوست احباب کرتے ہیں ۔ 

’’ بابائے امن‘‘ نے مجھے ہدایت کر رکھی ہے کہ ’’ بھائی اثر چوہان ! ۔ جب بھی گلاسگو میں قومی تقریب منعقد ہو تو ، مجھ سمیت تمام شرکائے تقریب کا فیصلہ ہے کہ ’’ ہمارے ناموں کے ساتھ سیّد ؔ ۔ ملکؔ ۔ راناؔ ، چودھریؔ۔ میاں ؔ جیسے سابقے نہ لگائے جائیں!‘‘ تو ، معزز قارئین!۔ آج شام گلاسگو میں قائداعظم ؒسے متعلق تقریب میں ، بابا بشیر مان کے علاوہ ، باباغلام ربانی اور دوسرے بابے اور جو ، نوجوان شریک ہو رہے ہیں اُن کے نام یہ ہیں ۔ نوجوان ، محمد سلیم، محمد یونس، محمد حنیف، محمد دین، محمد اعظم، رستم بیگ، محمد آمین، حاجی محمد سعید، شمیم احمد، ذیشان ، منظور احمد ، عبداُلرشید، محمد ہارون، محمد اِحسان، نذیر احمد، شکیل احمد ، نفیس احمد، عبداُلشکور، غلام محمد، دِلشاد احمد، عابد سلیم، محمد اصغر ، عبداُلخالق اور نوید احمد۔

معزز قارئین! ۔ ’’ تحریک ِ پاکستان‘‘ کے دَوران میرے والد صاحب ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے "National Guards" کو ( متعصب ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑنے کے لئے ) ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاستوں نابھہؔ ، پٹیالہؔ اور ضلع امرتسر ؔ میں میرے خاندان کے 26 افراد ( زیادہ تر سِکھوں سے لڑتے ہُوئے ) شہید ہوئے تھے لیکن، مَیں ’’ لٹھ باز‘‘ تو نہیں بن سکا البتہ ’’ قلمباز ‘‘ بن گیا ہُوں ۔ مَیں ، اپنی 58 سالہ صحافتی زندگی میں ، قائداعظمؒ اور پاکستان کے سیاسی مخالفین کے خلاف ’’قلم بازی‘‘  کا خوب مظاہرہ کرتا رہا۔ 25 دسمبر 1973ء کو ، مَیں سرگودھا میں تھا، جب مَیں نے قائداعظمؒ کی سالگرہ کے موقع پر ایک نظم لکھی ۔ نظم کے تین شعر پیش  خدمت ہیں …

نامِ محمد مصطفیٰؐ نامِ علی ؑ، عالی مُقام!

کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظمؒ کا نام!

…O…

سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھی کے سپُوت !

ساتھ میں رُسوا ، ہُوئے، فتویٰ فروشوں کے اِمام!

…O…

یہ ترا اِحسان ہے ، کہ آج ہم ، آزاد ہیں!

اے عظیم اُلشان قائد! تیری عظمت کو، سلام!

معزز قارئین!۔ سرگودھا شہر میں ’’ تحریکِ پاکستان ‘‘کے کارکن ، ماہر اقبالیات ، پروفیسر منور مرزا ؔ ہمارے پڑوسی تھے ۔ اُن کا چھوٹا بھائی پروفیسر مظفر مرزا (مرحوم) میرا لڑکپن کا دوست اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں کلاس فیلو تھا ۔ مَیں نے 1973ء میں لاہور سے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو، ایک دِن (فروری 1980ء میں) برادرِ محترم منور مرزاؔ مجھے ، میری فرمائش پر لاہور میں قومی ترانہ کے خالق جناب حفیظ جالندھری کے گھر لے گئے۔ جناب ِ حفیظ جالندھری نے شگفتہ انداز میں کہا کہ ’’ عزیزم اثر چوہان!۔ کیا تُم جانتے ہو کہ ’’ مَیں بھی راجپوت چوہان ہُوں ؟ ‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جی ہاں!‘‘ ۔ مَیں نے آپ کا انٹرویو پڑھا ہے! ۔ جنابِ حفیظ جالندھری نے میری کامیابی کے لئے دُعائیں کیں!۔ 

یہ شاید اُنہی دُعائوں کا نتیجہ کہ ’’ جب مَیں نے اپنے دوست ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ، 20 فروری14 20کو چھٹی سہ روزہ ’’ نظریہ ٔ پاکستان کانفرنس ‘‘ کے لئے ملّی نغمہ لِکھا ، جسے ’’نظریاتی سمر سکول ‘‘ کے میوزک ڈائریکٹر جناب عاصم مجید کی کمپوزنگ کے بعد "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایا تو، ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ، جِس پر فوراً ہی جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا اور ایک "Shield" عطا فرمائی۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ اگر جناب حفیظ جالندھری 20 فروری 2014ء کو حیات ہوتے تو، شاید خُوش ہوتے کہ ’’ پاکستان کے لئے ملّی ترانہ لکھنے والا شخص بھی راجپوت چوہان ہے! ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میرے ملّی ترانے کا عنوان اور تین شعر یوں ہیں …

پیارا پاکستان ہماراپیارے پاکستان کی خیر!

…O…

پیارا پاکستان ہمارا ، پیارے پاکستان کی خیر!

پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر!

…O…

خواب شاعر مشرق ؒ کو ، شرمندۂ تعبیر کیا!

روز قیامت تک ، کردار قائد ؒ والا شان کی خیر!

…O…

خطہ پنجاب سلامت ، خیبر پختونخوا ، آباد!

قائم رہے ہمیشہ ، میرا سندھ ، بلوچستان کی خیر!

معزز قارئین! حفیظ جالندھری صاحب کا یوم وِصال 21 دسمبر 1982ء ہے اور امریکہ میں میرے ’’فرزند ِ اوّل ‘‘ (ذوالفقار علی چوہان ) کے ’’فرزند ِ اوّل ‘‘( شاف علی چوہان ) کا یوم پیدائش 21 دسمبر 2002 ء ہے ۔ حفیظ جالندھری صاحب کی یاد میں مَیں جب بھی ، امریکہ ، اسلام آباد یا لاہور میں شاف علی چوہان کی سالگرہ کا اہتمام کرتا ہُوں تو ، اُس سے پہلے جنابِ حفیظ جالندھری کے لئے قرآن خوانی اور اُن کے درجات کی بلندی کی دُعائیں بھی کرتا ہُوں۔ پاکستان میں عدالتی انقلاب ؔکے برپا ہونے کے بعد ، پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ’’نیا پاکستان ‘‘ کا سورج طلوع ہو چکا ہے تو، کیوں نہ قومی ترانہ کے خالق جناب حفیظ جالندھری کی تخلیق ’’ قومی ترانہ ‘‘ سے اِن دو مصرعوں کی برکت سے یوم وِصال قائداعظمؒ پر …

پاک سر زمین کا نظام!

قوتِ اخوتِ عوام!

کے لئے اپنی جدوجہد تیز کردیں! کامیابی تو، ربّ اُلعالمِین کے ہاتھ میں ہے ۔