پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ پاکستانی قوم جمہوریت سے بیزار اور دوسرے آپشنز کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ہر سیاسی جماعت ہر مسئلے کو صرف اس انداز سے سوچتی ہے کہ اس کی جماعت کا کس میں فائدہ ہے اور ہر جماعت کے ممبران پارلیمنٹ اپنی قیادت کے سامنے موم کی ناک کی حیثیت رکھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں حقیقتاً پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں اور آنکھیں اور کان بند کر کے اپنی قیادت کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔جن لوگوں کے ووٹ سے یہ لوگ پارلیمنٹ کے ممبر بنتے ہیں ان کی حیثیت پرِکاہ کے برابر بھی نہیں ہے۔نہ کوئی پارلیمنٹ کا فیصلہ ماننے پر تیار ہے نہ عدالت کا۔عدالتوں کو متنازعہ بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوئی سزا نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کے ہر ادارے کو متنازعہ بنا دیا جائے اور سیاستدانوں کے احکام من و عن بجا لائے جائیں چاہے وہ قانونی ہوں یا غیر قانونی۔شفافیت کی بات سب کرتے ہیں لیکن شفافیت کسی کو قبول نہیں ہے آج حمزہ شہباز بھی فرما رہے ہیں کہ EVMکی وجہ سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہو جائے گی لیکن وہ یہ جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان کے اکائونٹ میں پچیس ارب روپیہ کس نے جمع کروایا ہے اور ٹی ٹی کے وسیع کاروبار کا کیا راز ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے خلاف اٹھنے والے ہر اعتراض کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں تیس تیس سال حکومت کرنے والے بھی یہ کہتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے کہ اگر قوم انہیں ایک موقع اور دیدے تو وہ قوم کی قسمت بدل دیں گے۔اس سے پہلے تیس سال میں انہوں نے قوم کی تقدیر کیوں نہیں بدلی اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے پچھلے تین سال اپنی فتح کا جشن منانے اور سابقہ حکومت کی کارکردگی میں کیڑے نکالنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔جو وعدے اپنے منشور میں اس مفلوک الحال قوم سے کئے گئے ان کا پانچ فیصد بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔عام آدمی کی حالت بدسے بدتر ہو رہی ہے۔اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنی مطلوبہ ترامیم پاس کروا لینے کے بعد ایک نیا جشن شروع ہو چکا ہے۔خوئے غلامی کے شکار وزراء عمران خان کی تعریفوں میں مصروف ہیں۔وزیر ریلوے نے فرمایا ہے کہ عمران خان نے سیاسی ورلڈ کپ جیت لیا ہے اور شبلی فراز کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال میں ایک ملین مشینیں بنا سکتے ہیں۔وزیر ریلوے نے آج تک کوئی بیان ریلوے میں اپنی کارکردگی کے بارے میں نہیں دیا۔الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف کھڑا کرنے میں بھی موصوف کا بڑا حصہ ہے۔آج الیکشن کمشن نے بیان جاری کیا ہے کہ وہ آئندہ انتخاب EVMسے کرانے کے پابند نہیں ہیں اور EVMکو متعارف کروانے سے پہلے 14مختلف مراحل سے گزرنا ہو گا۔سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت شاید ہی آنے والے انتخابات تک مطلوبہ سہولیات مہیا کر سکے کہ EVMکا استعمال ممکن ہو۔پی ٹی آئی کا اب تک کا ٹریک ریکارڈ بھی یہی گواہی دیتاہے کہ اعلانات زیادہ ہیں اور عمل کم۔وزیر اعظم کے لئے مشورہ یہی ہے کہ نہایت معمولی اکثریت تے ترمیمات منظور کروانے کا جشن منانا بند کیا جائے اور یکسوئی کے ساتھ وزراء کو متعین ذمہ داریاں سونپی جائیں کہ کس طرح EVM بنانی ہیں یا خریدنی ہیں اور کس طرح شفاف ترین انتخابات کو ممکن بنانا ہے۔ ایک اور ترمیم جو قابل فکر ہے وہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو حق اپیل دینے کے بارے میں ہے بعض جاہل عناصر یا عمران خان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے لوگ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس ترمیم سے شاید بھارت کے لئے نرم گوشے کا اظہار ہوتا ہے حکومت کے لئے لازم ہے کہ اس پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عام لوگوں کی سمجھ بوجھ کے لئے اس کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں کہ یہ کیوں ضروری ہے اور کس طرح بین الاقوامی عدالت کی شرط پوری کی گئی ہے۔دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا حصہ بنانے کی بجائے حقائق عوام کے سامنے لائیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسی ترامیم متفقہ طور پر منظور کی جاتیں جن کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ وطن عزیز کی اجتماعی بھلائی کے ساتھ ہے۔ ایک اور ترمیم جس کا تعلق سٹیٹ بنک آف پاکستان کی آزادی عمل سے ہے۔اس کے حسن و قبح بھی عوام کے سامنے لانے چاہئیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک حد تک سٹیٹ بنک کو آزادی عمل حاصل ہونی چاہیے اور حکومت وقت کو اس بات کی آزادی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ سٹیٹ بنک کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے استعمال کر سکے جس کا مشاہدہ ماضی میں کیا گیا اور قوم کے اربوں ڈالر‘ڈالر کے ریٹ کو کنٹرول کرنے پر استعمال کئے گئے۔ایسے اقدامات کے خلاف چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہایت ضروری ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے جو آزادی سٹیٹ بنک کو دی ہے اس کے نتیجے میں منی لانڈرنگ اور ٹی ٹی کلچر کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا ہے اور یہ پاکستان کے معیشت کے لئے ایک مثبت اقدام ثابت ہوا ہے۔سٹیٹ بنک کے موثر کنٹرول کی وجہ سے کمرشل بینکوں کے رویے میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے اور اب کمرشل بنک ایسی رقوم جمع کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کے ذرائع نہ معلوم ہوں۔جعلی بنک اکائونٹ بنانا بھی نہایت مشکل ہو گیا ہے لیکن اس کے برعکس سٹیٹ بنک کے گورنر کو امریکی وائسرائے کا درجہ دینا بھی ملک کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ملکی ماہرین کی مدد سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک عمدہ نظام پیدا کیا جا سکتا ہے۔کوئی آزادی بھی لامحدود نہیں ہو سکتی۔مثال کے طور پر جس طرح افغانستان کے فارن ایکسچینج ریزرو آج امریکہ میں پڑے ہیں اور افغانستان ایک ایک ڈالر کا محتاج ہے۔یہ اجازت کسی صورت نہیں دینی چاہیے کہ ہمارا سٹیٹ بنک ہمارے فارن ایکسچینج ریزرو ملک سے باہر بھجوا سکے۔ایسے چیک اینڈ بیلنس ترتیب دینے کے لئے مزید ترمیم بھی کرنی پڑے تو ساری سیاسی جماعتوں کو متفقہ طور پر ایسے اقدام کرنے چاہیں۔اپوزیشن بھی اس ترمیم پر تنقید کرنے سے گریزاں ہے شاید بڑی طاقتوں کے مفادات کے سامنے ان کے بھی پر جلتے ہیں۔بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہیں اور ان کی کڑی سے کڑی شرائط ماننے پر تیار رہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قوم اپنی آنکھیں کھولے اور ایسی تحریک کا آغاز کرے کہ وطن عزیزسے لوٹ مار کرنے والی اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے والی جماعتوں کا خاتمہ ہو جائے۔عام آدمیوں کا جھوٹ تو قابل برداشت ہو سکتا ہے لیکن جھوٹے وعدے کرنے والے حکمران اور سیاسی رہنما کسی طور قابل قبول نہیں ہونے چاہئیں۔مغرب میں جمہوریت اسی لئے کامیاب ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کو سخت کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور حکمرانوں میں سماجی برائیوں کو قبول نہیں کرتے۔لیڈروں کو تو چھوڑیے اگر ہمارے عوام ہی شفافیت کو اپنا اصول بنا لیں تو جھوٹی تقریریں کرنے والے اور اداروں کے خلاف سازشیں کرنے والے بہت سے لیڈروں سے ہماری جان چھوٹ سکتی ہے۔