میری ہستی کسی نشان سے ہے اک یقین سا مجھے گمان سے ہے اپنی طاقت کو کھینچنے کے لئے تیر لپٹا ہوا کمان سے ہے غور کرو تو یہ سب سامنے کی باتیں ہیں۔کوئی بھی فوکس کے بغیر اوجھل ہی ہے جیسے شور میں کتنی آوازیں اپنی انفرادیت کھو دیتی ہیں رنگوں میں بھی ہر رنگ کہاں آنکھ کو بھاتا ہے۔بات دل کی کہاں بیاں ہو گی بات ظاہر مرے بیان سے ہے۔ بہرحال بات تو سمے کی ہے جس کی آنکھوں کا رنگ آسمانی ہو اس کی آنکھوں میں جچتی نہیں زمیں جب محبت نے دل میرا روشن کیا مجھ کو لگنے لگی ساری دنیا حسیں۔ گل چینی کے بعد گلدستہ بنتا ہے اور پھر وہ گلدان تک پہنچتا ہے کبھی کبھی سیاست سے دل دکھتا ہے یا تنگ پڑتا ہے تو پھر ادھر کے خیالات کی طرف ذھن پلٹ جاتا ہے یہ سوچ کس قدر تکلیف دہ ہے کہ حکومت کون کرتے ہیں کیسے کرتے ہیں اور کس کے لئے کرتے ہیں کائنات کی بوقلمونی اور رنگا رنگی سب کو کہاں کھینچتی ہے ۔ سرراہ ایک بات کا تذکرہ کرتا چلوں کہ مولانا حمید حسین نے حق کی پہچان کا تذکرہ کیا کہ ایک زمانہ تھا جب صرف علم النقول تھا کہ ہم نقل پر یقین کرتے تھے کہ اس وقت سچ مچ صادق اور امین کے معنی تھے سچ اپنی معراج پر متمکن تھا پھر اس حق اور سچ کے پیغام کو تسلسل ملا پھر ہم نے یقین کے لئے علم العقول کا سہارا لینا چاہا کہ عقل آگے آ گئی وہ بات نہ رہی جہاں سے اقبال بول رہا تھا: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی بہرحال عقل کے تقاضے تھے کہ آمدہ سچ کو عقل کے زور پر پرکھیں تو علم الکلام سامنے آ گیا۔نئے نئے علوم تراشے گئے۔علم الکلام نے بلندیوں کو چھوا اور اس موضوع کو ذہنی عیاشی بنا دیا گیا مگر ہر شے احاطہ ادراک میں کہاں آ گئی ہے کہ وسعتوں کی حدود ہی نہیں ہم سب تو کسی محیط میں ہیں نہ ادھر معصوم نہ ادھر اور پھر انسان کو قرار کہاں۔ مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آئی تو ایک اور کوشش آغاز ہوئی اور اب کے اس بے صبرے نے سچ اور حق کو محسوس انداز میں دیکھنا اور رکھنا چاہا یعنی ایسا علم کہ سب کچھ احساس سے جڑ سکے۔وہی کہ جب آرم سٹرانگ نے کہا تھا کہ اس سے زمین کے اردگرد کئی گھنٹے تک پرواز کی تھی مگر اسے تو کوئی خدا نظر نہیں آیا اب آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج کے انسا ن نے خدا کے ہونے کی دلیل کیا چاہی۔یہ بات برٹ اینڈرسل نے بھی کہی تھی کہ اس سے اگر پوچھا گیا تو وہ کہہ دے گا کہ اس کی عقل میں خدا آیا ہی نہیں۔کاش وہ دل کی طرف توجہ دیتا مگر یہ بات تو ساری عطا کی ہے مگر ٹھہرئیے یہ محسوسات والی بات کوئی نہیں تو نہیں یہ تو واپسی کا سفر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسے ہی سوالات ہوتے تھے بلکہ اس سے پہلے بھی بنی اسرائیل نے بھی تو یہی کہا تھا کہ وہ تب ایمان لائیں گے اگر وہ خدا کو آنکھ سے دیکھیں گے پھر یہ بھی پوچھا کہ اللہ ان سے بات کیوں نہیں کرتا۔مگر بات تو یہ ہے کہ جب سب کچھ سامنے آ جائے گا تو پھر توبہ کا وقت ختم ہو چکا ہو گا اللہ کی اپنی حکمتیں ہیں کہ سب غیب پر رکھ چھوڑیے اور شیطان کو بھی کھلا چھوڑ رکھا ہے ویسے تو یہ سارا کھیل ہماری آنکھ سے اوجھل ہے مگر ہم اس کھیل کے کردار ضرور ہیں۔ایسے ہی شہزاد احمد یاد آئے: پھر دکھاتا ہے مجھے جنت فردوس کے خواب کیا فرشتوں میں ترا دل نہ لگا میرے بعد کہاں تک سنو گے زمیں سے زمیں تک میری داستان کمال وہ عروج۔میں پہلے حصار بدن میں رہا پھر اسیر زمان و مکاں ہو گیا۔منیر نیازی نے بھی کہا تھا سیاہ شب کا سمندر سفید دن کی ہوا۔انہی قیود کے اندر فریب ارض و سما۔ بس یہ حد بندیاں تو ہیں ۔ ویسے اقبال نے تو کمال کیا کہ خود کو پابند کر کے شاہکار و باکمال شاعری ہم کو دان کی۔اس کو کہتے ہیں اصلی فن کہ شاعری کو مقصد سے ہم آہنگ کر دیا جائے یہ وسعت ان کے وژن کی ہے۔یہ ادراک سب کو نصیب بھی کب ہوتا ہے دوسری بات یہ کہ ان کا نفس مضموں اور حسن زباں بھی باہم پیوست ہو گئے یہ میرا خیال نہیں کہ میتھیو آرنلڈ کا ہے کہ شاہکار کی پہچان ٹھہرتی ہے کہ جہاں زبان اور بیاں ایک دوسرے کے لئے موزوں ہوں یعنی پوشاک جسم پر جچ جائے۔موت نہیں زندگی ہے یہی فعالیت تحریک کا دوسرا نام لہو گرم رکھنے کا بہانہ بھی۔میں نے تو یونہی جسارت کر دی تھی مگر یہ طغلانہ: حافظ و غالب و اقبال سے صحبت سے ہمیں ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں اقبال نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ مرا نور بصیرت عام کر دے اب تو ہم میں اتنا حوصلہ اور علم ہی نہیں کہ اس دروش کے آئینہ خانے میں اتر سکیں سب کچھ تو سطحی ہو چکا ہے سنجیدہ باتوں پر سانس پھولنے لگتی ہے اب تو ان بڑے لوگوں کے نام نہیں آتے۔وہ کتنے ہی شاعروں کا کفارہ ادا کر کے چلے گئے انہوں نے صرف پاکستان کا خواب نہیں دیکھا تھا وہ اس خواب میں امت مسلمہ کے رنگ بھی بھرنا چاہتے تھے ذرا غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نخف کوئی بات اگر درمیان میں رہ گئی ہو تو معافی کا طلب گار ہوں بس میں ایک محبت کے بہائو میں بہہ گیا کہ شاید یہ تذکرہ ضروری تھا میں تو پیاسا ہوں میں نے ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب سے کہا تھا کہ وہ اپنے سارے اقبال مضامین اور کالم مجھے بھیج دیں ڈاکٹر تحسین فراقی یقینا ادبی ورثہ کی حیثیت رکھتے ہیں آخری بات یہی کہ اقبال آپ کوبلندی کی طرف اٹھاتا ہے یا بلند کرتا ہے رفعت عطا کرتا ہے شرف سے آشنا کرتا ہے کچھ بھی کہہ لیں کوئی معراج ضرور ہے۔