برسوں بعد اگر آپ کی ایک نظم کسی اونچے ادبی رسالے میں شائع ہوئی ہو اور آپ کو اس نظم کا پہلا فیڈ بیک توصیفی کلمات کی صورت اردو اور عربی ادب کے ممتاز محقق، شاعر جناب خورشید رضوی صاحب کی طرف سے عطا ہو تو پھر آپ کا دن بن جاتا ہے۔اس سے مجھے ادبی جریدوں میں شائع ہونے کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا اور ایک واقعہ بھی یاد آیا ۔ اس واقعے کے راوی ممتاز شاعر اور باکمال کالم نگار ہیں، جنہوں نے ایک آفیسر شاعر سے کہا کہ آپ ادبی رسالوں میں بھی اپنی نگارشات بھیجا کریں۔ جواب آیا" اپنی تازہ شاعری فیس بک پر پوسٹ کر دیتا ہوں ادبی رسالوں میں بھیجنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی "۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں حیرت ہوئی کہ وہ اچھے ادبی جریدوں میں چھپنے کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ اور یہ بات سن کر میں نے دیانتداری سے اعتراف کیا کہ مجھے خود اس اہمیت کا اندازہ نہیں ہے ،اس میں میری سستی کے ساتھ اس حقیقت کا عمل دخل بھی ہے کہ کئی برسوں سے بطور کالم نگار اہم قومی روزناموں میں ہفتے کے دو سے تین دن میری تحریر شائع ہوتی ہے ،پھر مزید کہیں اور چھپنے کی خواہش نہیں رہتی یہی وجہ ہے میں ادبی رسالوں میں اپنی تحریریں بھیجنے میں ہمیشہ سستی کا مظاہرہ کرتی ہوں۔ مسلسل لکھنے ،چھپنے اور پڑھے جانے کے عمل میں رہنے کا کچھ نقصان خالص تخلیقی اظہار کی صلاحیتوں کو ضرور پہنچتا ہے، کالم لکھنے میں کچھ نہ کچھ کتھارسز ہوتا رہتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ لکھاری ادبی حلقوں میں اپنا نام اور پہچان بنانے کے لیے اچھے ادبی جریدوں میں شائع ہونا ضروری سمجھتے تھے۔ان ادبی رسالوں میں چھپنا آسان نہیں تھا کہ ہر تخلیق کو ادبی رسالے کے مدیر کے سخت معیار سے گزرنا ہوتا تھا۔ ادبی رسالے کے مدیر کا معیار کسی اخبار کے مدیر سے زیادہ سخت ہوتا ہے کیونکہ وہ تحریر کی تخلیقی جہتیں بھی دیکھتا ہے اور زبان و بیان کی نزاکتوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے برعکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے لوگوں کو ایسے مواقع دئیے کہ وہ جب چاہیں کچا پکا لکھ کر شئیر کردیں اور فالورز سے واہ واہ سمیٹتے رہیں۔ یہ عمل ہر طرح کی گہرائی سے بالاتر ایک سطحی چیزیں تو تخلیق کر سکتا ہے مگر بڑا ادب اس طرح تخلیق نہیں ہوتا۔بہرحال شکر گزار ہوں حسین مجروح صاحب کی کہ انہوں نے مجھ سے میرے نظمیں منگوائیں اور سائبان کا حصہ بنایا۔ حسین مجروح صاحب ون مین آرمی ہیں وہ ایک ادبی مینٹور کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک بے رحم ایڈیٹر ہیں ان کے معیار پر پورا اترنا آسان نہیں۔ مجروح صاحب ہر نئے پرچے کا ایک خاکہ ذہن میں بناتے ہیں پھر وہ متعلقہ موضوع پر لکھنے والے لوگ ڈھونڈتے ہیں اور ان سے فرمائش کرکے تحریریں لکھواتے ہیں، اس سلسلے میں وہ درخواست پیار دھونس دھمکی ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرسکتے ہیں ۔ ان کے حوالے سے اسلم ملک صاحب نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ حسین مجروح اس لیے منفرد مدیر ہیں کہ فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بعض ممتاز لوگوں سے ان کے ذاتی تعلقات ہیں اور پھر وہ ان سے کہہ ایسی عمدہ تحریریں لکھواتے ہیں جو شاید ویسے منظر عام پر نہ آئیں۔ سائبان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ شعر وادب کے ساتھ فنون لطیفہ کے وہ شعبے جو ادب اور زندگی کو سیراب کرتے ہیں، ان کے حوالے سے بھی بہت عمدہ تحریریں سائبان میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ادب لطیف ایک اور اہم ادبی جریدہ ہے جو کئی دہائیوں سے شائع ہو رہا ہے ادب کے بہت اہم نام ادب لطیف کے مدیر رہے ہیں ۔ ان دنوں مظہر سلیم مجوکہ اور باکمال شاعرشہزاد نیر کی ادارت میں ادب لطیف کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔اس کے اداریے پر دونوں صاحبان کے نام ہوتے ہیں۔ مشورہ یہ ہے کہ دونوں اہل علم الگ الگ ایک ایک صفحے کا اداریہ ہر شمارے میں شامل کیا کریں تاکہ پڑھنے والے کو معلوم ہو کہ مظہر سلیم مجوکہ نے کیا لکھا ہے اور شہزاد نیر نے کیا لکھا ہے۔ ادب لطیف کے ستمبر اکتوبر اور نومبر دسمبر کے شماروں میں بہت کچھ پڑھنے کو ہے ۔شاہین مفتی کے کلام نے بطورِ خاص لطف دیا۔ممتاز نثر نگار محمد الیاس پر لکھا عرفان جاوید کا خاکہ نما مضمون کچھ غیر ضروری طویل تو محسوس ہوا لیکن بہت دلچسپ اور منفرد تحریر ہے۔تسطیر کا بھی 112 جریدہ جہلم بک کارنر سے موصول ہوا۔تسطیرکا ٹائٹل بہت آرٹسٹک ہے اس کے کے مدیر ممتازنظم گو شاعر نصیر احمد ناصر صاحب کا بھی چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا ایک اپنا جمالیاتی معیار ہے۔ابھی تسطیر کا تفصیلی مطالعہ نہیں کیا مگر اس پہ کافی محنت کی گئی ہے اور پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔ اس تسطیر کی تخصیص یہ ہے کہ اس میں نظم کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔اس کا ایک حصہ اردو نظموں کے انگریزی تراجم کا بھی ہے۔ نصیر احمد ناصر نئے لوگوں کو بھی بڑے اہتمام سے تسطیر میں شائع کرتے ہیں۔ ادبی رسالوں کا ذکر ہو تو بیاض کا نام۔کیسے رہ سکتا ہے۔ یہ ادبی رسالہ ہے گزشتہ دو دہائیوں سے مجھے مسلسل مل رہا ہے اور آفرین ہے نعمان منظور اور عمران منظور کی کشادہ دلی پر کہ جس مستقل مزاجی سے یہ رسالہ بھیجتے ہیں، انہوں نے کبھی رسید تک طلب نہیں کی۔ یہ ایک درویش قسم کا ادبی رسالہ ہے جہاں سب کو جگہ مل جاتی ہے نئے پرانے لکھاری معیاری اور درمیانے درجے کی تحریریں سب کچھ آپ کو بیاض میں مل جائے گا۔ ان تمام ادبی رسالوں کا اپنا مزاج اور اپنی فضا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اتنی محنت سے تیار کیے گئے یہ ادبی رسالے کیا عام قاری تک بھی پہنچتے ہیں یا صرف ادیبوں اور شاعروں کے حلقے میں ہی پڑھے جاتے ہیں؟ اور کیا سیاسی بحث ومباحثہ کی افیم کا شکار آج کل کی نسل ادبی رسالوں کی طرف لایا جاسکتا ہے ؟یہ سوال اس لیے اہم ہیں کہ ادبی رسالے پڑھنے سے ہمارے مزاج اور شعور کی تہذیب ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کے سیاسی پولرائزیشن کے اس دور میں ادب انسانوں میں یگانگت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے اس تیز ترین دور میں بھی ادب اور ادبی رسالوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ٭٭٭٭٭