حصولِ اراضی کے قانون کو ہماری اشرافیہ نے کیسے ذاتی غرض کے لیے استعمال کیا ہے، اس پر میں ایک پچھلے کالم میں گفتگو کرچکا ہوں۔ اب اشرافیہ کے ایک اور حربے کی بھی بات ہوجائے۔ وہ حربہ یہ ہے کہ ملازمین کے لیے کم قیمت اور آسان اقساط پر پلاٹ کے حصول کی سکیم بنائی جائے اور پھر اس سکیم سے سارا فائدہ اشرافیہ اٹھانا شروع کردے۔ سرکاری ملازمین کی سب سے بڑی خواہش ذاتی گھر کے حصول کی ہوتی ہے جس کے لئے وہ اپنی ساری جمع پونجی لگادیتے ہیں۔ بہت سوں کو اس کے باوجود ذاتی گھر نہیں ملتا کیونکہ ان کو دینے کے لئے سکیم میں پلاٹ ہی باقی نہیں رہتا۔ دوسری طرف اعلی افسران کے لئے کئی پلاٹوں کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے اور بعض اوقات گرین بیلٹ اور پارک یا دیگر عوامی مقاصد کے لئے مختص زمین بھی انہیں پلاٹ کے طور پر بہت ہی معمولی رقم پر دے دی جاتی ہے جسے وہ کچھ ہی عرصے بعد مارکیٹ کی قیمت کے مطابق فروخت کرکے کروڑوں کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ایسے ہی ایک مقدمے (ڈاکٹر اسلم خاکی بنام خواجہ خالد فاروق خان) میں اس ہفتے سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ بنچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے تھے اور انھوں نے ہی فیصلہ لکھا ہے جس سے بنچ کے دوسرے رکن جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے اتفاق کیا۔ مقدمے کی کہانی 2010ء سے شروع ہوتی ہے جب ڈاکٹر خاکی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس بنیاد پر رٹ پٹیشن دائر کی کہ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن نے اپنے مینجنگ ڈائریکٹر خواجہ خالد فاروق خان کو پہلے سے دیے گئے پلاٹ کے علاوہ ایک اور پلاٹ بھی دیا ہے حالانکہ قانون کی رو سے کسی کو دوسرا پلاٹ نہیں دیا جاسکتا۔ نیز مذکورہ دوسرا پلاٹ اصل میں گرین بیلٹ اور پارک کی جگہ تھی۔ کئی برس تک ہائی کورٹ میں اس وقت کے چیف جسٹس کے سامنے کیس چلتا رہا اور بالآخر انھوں نے 5 جولائی 2017ء کو اس بنیاد پر خارج کردیا کہ پولیس فاؤنڈیشن ایک نجی ادارہ ہے جس کے خلاف رٹ جاری نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات حیران کن اس وجہ سے تھی کہ سپریم کورٹ نے دو مرتبہ پولیس فاؤنڈیشن کے خلاف آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت مقدمات سن کر پلاٹوں کی غیر قانونی تقسیم کے خلاف احکامات جاری کیے تھے: ایک بار از خود نوٹس (نمبر 11 آف 2011) کے ذریعے اور دوسری بار باقاعدہ درخواست (انجم عقیل خان بنام نیشنل پولیس فاؤنڈیشن) پر؛ اور دونوں فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے قبل آچکے تھے۔ ڈاکٹر خاکی نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست (نمبر 1573 آف 2017) دائر کی جس کی سماعت 22 مارچ 2023ء کو اس دو رکنی بنچ نے کی اور پھر 19 جون 2023ء کو فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے لکھا کہ سپریم کورٹ جب دفعہ 184 (3) کے تحت مقدمہ سنتی ہے تو اسے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ دو شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں: ایک یہ معاملہ بنیادی حقوق کی تنفیذ کے بارے میں ہو، اور دوسری یہ کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہو؛ جبکہ ہائی کورٹ کے سامنے جب دفعہ 199 کے تحت رٹ درخواست آتی ہے تو صرف پہلی شرط دیکھنی پڑتی ہے۔ چنانچہ جب سپریم کورٹ نے پولیس فاؤنڈیشن کے خلاف مقدمات سنے تھے، تو ہائی کورٹ بھی سن سکتی تھی۔ انھوں نے مزید واضح کیا کہ پولیس فاؤنڈیشن کے لئے فنڈ سرکاری خزانے سے جاری کی گئی 2 کروڑ روپے کی رقم سے قائم کیا گیا تھا اور اس کی انتظامی کمیٹی کی سربراہی سیکرٹری داخلہ کے پاس ہوتی ہے جبکہ دیگر ارکان میں آئی جی پولیس، کمانڈنٹ پولیس اکیڈمی، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری وزارت صنعت شامل ہیں۔ پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسا نجی ادارہ ہے جس کے خلاف رٹ جاری نہیں کی جاسکتی؟ تکنیکی اعتراضات دور کرنے کے بعد جب مقدمے کے حقائق پر بات آئی تو معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب کو جو دوسرا (ایک کنال کا) پلاٹ صرف ساڑھے پندرہ لاکھ روپے میں دیا گیا تھا، وہ ایک سال کے اندر ہی انھوں نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے میں فروخت بھی کردیا ہے! مزید معلوم ہوا کہ گرین بیلٹ کے اس خطے کو پلاٹ میں تبدیل کرنے کا کام انھی خواجہ صاحب کے حکم پر ان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب خدا بخش نے کیا تھا اور پھر اسی دن بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ پلاٹ خواجہ صاحب کو دینے کی منظوری دی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منظوری پر جن تین افراد کے دستخط ہیں، ان میں ایک خود خواجہ صاحب تھے! جسٹس عیسیٰ نے اسے ذاتی مفاد کے لیے عہدے کے غلط استعمال کی واضح مثال قرار دیتے ہوئے لکھا کہ جب ریاست کے مفادات کو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھایا جائے تو نتیجے میں عادلانہ معاشرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ انھوں نے آئین کی رو سے پاکستان کا تصور ان الفاظ میں واضح کیا کہ یہ "اسلامی سماجی عدل کے اصولوں پر مبنی جمہوری ریاست" ہے۔ انھوں نے یہ بھی تصریح کی کہ ہماری آئندہ نسلیں، جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئیں، قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اور ایسی صورت میں زمین جیسی قیمتی شے کو اونے پونے بیچا جاتا ہے تو یہ اشرافیہ کا ملک اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔ مقدمے میں ایک اور بات یہ بھی سامنے آئی کہ سابق چیف جسٹس شیخ ریاض احمد، ایک فوجی عہدیدار میجر ندیم رفیق، سی ڈی اے کے ایک چیئرمین کی اہلیہ اور بعض دیگر لوگوں کو پلاٹ اس وجہ سے دیے گئے ہیں کہ انھوں نے فاؤنڈیشن کے منصوبوں کی منظوری کے لئے اعلی حلقوں میں اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔ اس پر جسٹس عیسیٰ نے لکھا کہ چونکہ ان افراد کا موقف عدالت کے سامنے نہیں ہے، اس لئے اس معاملے پر حتمی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا لیکن انھوں نے اصول واضح کیا کہ کسی کا چیف جسٹس ہونا یا فوجی افسر ہونا یا سی ڈی اے کے چیئرمین کی اہلیہ ہونا اسے پلاٹ کا مستحق نہیں بنادیتا، بلکہ اگر انھوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا ہے تو اس پر انھیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس پلاٹ کی فروخت کو بھی انھوں نے غیر قانونی قرار دے کر وصول کی گئی رقم خریدار کو واپس کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی قرار دیا کہ خریدار کو چونکہ اہم قانونی امور سے بے خبر رکھا گیا تھا، تو وہ ہرجانے کا دعویٰ بھی کرسکتا ہے۔ آخر میں انھوں درخواست گزار ڈاکٹر اسلم خاکی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جنھوں نے ذاتی غرض کے لئے نہیں بلکہ عوامی مفاد میں یہ قانونی جنگ لڑی۔ ابتدا سے آخر تک مقدمے کے اخراجات ادا کرنے کی ذمہ داری بھی عدالت نے پولیس فاؤنڈیشن پر عائد کردی جس نے قانون کے بجائے اپنے اس عہدیدار کا ساتھ دیا جس نے عہدے کا غلط استعمال کیا تھا۔ اگر سپریم کورٹ سیاسی اشرافیہ کے مسائل میں وقت اور وسائل ضائع کرنے کے بجائے اس طرح کے عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتونظامِ عدل کی جانب سے لوگوں کی مایوسی ختم ہوسکتی ہے۔