کیا آپ نے کسی ایسے انسان کو دیکھا ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو ، وہ دوستی وغیرہ کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہو اور اس سے دور بھاگتا ہو ۔مزید یہ کہ اسے کتابوں سے بھی کوئی رغبت کوئی شغف نہ ہو ۔ایسے انسان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا اپنا ایک مزا ہے ۔جو انسان کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کرتا اُس کا اپنا مطالعہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے ۔ عام طور پہ ایسے ا نسان بڑے دنیا دار ہوتے ہیں ۔ اُن میں حرص، ہوس ، لالچ کی ’ مقدار ‘ قدرے زیادہ پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی ذات کو سب سے پہلے رکھتے ہیں ۔عام مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ عموماًکنجوس اور بخیل توہوتے ہی ہیں یہ کسی کے خیر خواہ بھی کم ہی ہوتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے یہ لوگ بڑے محنتی ہوں ۔معاشرے میں بظاہر کامیاب بھی ہوں ۔اچھا پیسہ بنا رہے ہوں ۔ڈسپلن ،وقت کی پابندی وغیرہ کا بہت خیال رکھتے ہوں ۔لیکن ان میں انسان دوستی کا عنصر تقریباً مفقود ہوتاہے ۔ان کی زندگی بڑے محدود سے دائروں میں گھومتی رہتی ہے ۔ دفتر یا کاروبار اور اس کے بعد صرف فیملی ۔ یہ حد درجہ Self-centred ہوتے ہیں۔ان کی ترجیحات فرق ہوتی ہیں ان کی ذات ان کی بڑی ترجیح رہتی ہے ۔ ان سے بھلائی کی توقع عموماً عبث ہوتی ہے ۔ دوسری طرف دوست بنانے ، دوستی رکھنے ، نبھانے اور ددوستوں کو اپنی زندگی میں شامل رکھنے کے محض دل لگی یا اچھی وقت گزاری کے علاوہ کئی دیگر اور حیران کُن فائدے ہوتے ہیں جو بڑی خاموشی سے ان دوستوں کو حاصل ہوتے رہتے ہیں اور جن کی طرف ہماری توجہ بھی کم ہی جاتی ہے ۔دوستوں کی محفلیں ایک خاموش ’ اکیڈمی ‘ کا کردار ادا کرتی رہتی ہیں ۔دوستوں کی صحبت میں ہم زندگی کرنے کے گُر سیکھتے ہیں ۔ یہ ہمیں بڑے غیر محسوس طریقے بڑے نامعلوم انداز میں آدابِ زندگی سکھاتے چلے جاتے ہیں ۔دوست ایک دوسرے کے لیے ایک پناہ گاہ کی طرح ہوتے ہیں۔آپ کے دوست جس طرح آپ کو جانتے سمجھتے ہیں کوئی اور تعلق رشتہ شاید ہی ایسی قربت کا دعویٰ کر سکے ۔ ایک پرانا دوست ایک آئینے کی مانند ہوتا ہے جس میں انسان کو ہر اچھائی برائی کمی کوتاہی نظر آتی رہتی ہے ۔امریکی دانشور ہنری فورڈ کہا کرتا تھا کہ میرا بہترین دوست وہ ہے جو میرے اندر کے بہترین انسان کو باہر نکالے ۔ دوستی کی ایک خوبصورتی بغیر محسوس کروائے ایک دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ عمل دوستوں کے بیچ متواتر چلتا رہتا ہے ۔ انسانی تربیت میں اگرچہ گھر والوں ،بڑوں اور بزرگوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے ۔لیکن کچھ موضوعات پہ بات کرنا شاید اُن کے لیے بھی مُشکل ہوتا ہے جن کے ذمے ہماری تربیت کا اہم کام ہوتا ہے ۔ہمارے گھر والے بڑے بزرگ چاہتے ہو ئے بھی کئی چیزیں ہمیں نہیں بتا پاتے ۔کئی ضروری اور مفید باتیں محض بڑوں کی ضروری ، غیر ضروری شرماہٹ کی نذر ہو جاتی ہیں اور ہم تک نہیں پہنچ پاتیں ۔ بلاشُبہ انسانی تربیت میں فیملی اور اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے لیکن زندگی کی کئی اہم پہلو بہر طور ایسے ہیں جہاں صرف دوست احباب ہی انسان کی بہترین راہنمائی کر سکتے ہیں یہاں میرا اشارہ انہی پہلووں اور موضوعات کی طرف ہے ۔ دوستوں کی محفلوں میں بیٹھے ان موضوعات پہ بلاجھجھک، بے تکان گفتگو ہوتی ہے ۔ بلکہ زیادہ تر یہی’ Taboos‘ ہی زیرِ بحث رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دوستوں کی بے تکلف منڈلیوں میں ہم تہذیب سیکھتے رہتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔ کون سی بات کیسے کرنی ہے! ۔۔ لہجے کا اتار چڑھائو کیسا ہونا چاہیئے ! کون سی حرکت حس جمال کو کس طرح اور کتنا متاثر کرتی ہے ۔کون سا جُملہ نازک طبائع اور حسّاس اذہان پر کیا اثر ڈالتاہے ۔ کون سی بات کس محفل کے لیے ہے اب آپ بتائیے کہ اگر کوئی شخص دوستی کی ’ اکیڈمی ‘ سے مستقل طور پہ محروم رہا ہو اُس کی بد نصیبی کا اندازہ لگانا کون سا مُشکل ہے ۔عام مشاہدے میں آتا ہے کہ ایسے انسان کی شخصیت میں کئی خلا رہ جاتے ہیں ۔ میں نے بعض ایسے لوگوں میں یہ کمی بُری طرح محسوس کی ہے ۔ دوستی سے نفرت اور دوستوں سے محروم افراد میں یہ خلا بڑ ی آسانی سے نظر آجاتا ہے ۔ اُن کی گفتگو میں وہ لطافت اور نفاست مفقود ہوتی ہے جو عمدہ ، شُستہ گفتگو کا خاصہ ہوتی ہے ۔ہمیں اُن کے ہاں آداب، رکھ رکھائو ، تمیز اور تہذیب وہ چلن نظر نہیں آتا جو شخصیت کا نکھار ہوتا ہے ۔دوستوں سے محروم لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوتی ہے ۔جنہیں دوستوں کی محفلیں نصیب نہیں ہوتیں اُن کے رہن سہن سے آپ کو اس کمی کی جھلک صاف نظر آتی ہے ۔ یہ لوگ Quality Life سے محروم رہتے ہیں ۔بھانپنے والے آسانی سے جان لیتے ہیں کہ فُلاں بندے کی زندگی میں فُلاں آداب کی کمی کا سبب اُس کا دوستی کے رشتے سے مسلسل محروم رہنا ہے ۔ یہ بات نہیں ہے کہ ان لوگوں کو اپنی اس شدید کمی کا احساس نہیں ہوتا ۔ دوران زندگی مختلف مقامات پر اور خا ص طور پہ زندگی کی آخری منازل میں جب یہ لوگ پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو انہیں دوستی کی اہمیت کو مسلسل نظر انداز کرتے رہنے کے فیصلے پہ شدید پچھتاوا ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس مرحلے پر اس کا کچھ مداوا ممکن نہیں ہوتا ۔۔! ’کوئی محرومی سی محرومی ہے ۔‘