کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل اس وقت ہر ایک منٹ میں ایک بم غزہ پر پھینک رہا ہے، یہ بات بین الاقوامی ادارے ریڈکراس کے ذمہ دار عہدیداران نے بتائی جو اس وقت غزہ کی پٹی پر موجود ہیں، اور اسرائیل سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بمباری روکے، تاکہ وہ غزہ کے اندر کے حالات سے واقفیت حاصل کر سکیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ ’جو چیز ہمیں اندر جانے سے روک رہی ہے وہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کے پورے حصے پرشدید ترین بمباری ہے۔ ہم آٹھ دن سے سرحد پر تعینات ہیں اور ہر منٹ بم گر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک بنجر زمین پر بھی بمباری کر رہے تھے جہاں نہ تو جانور ہیں اور نہ ہی انسان‘ جبکہ دوسری جانب امریکا کا زبردست حلیف ملک امریکا اس ساری صورتحال کو خود مانیٹر کر رہا ہے اور جنگ بندی کو سلامتی کونسل میں ویٹو کر رہا ہے۔ امریکا بھی اسرائیل کی طرح چاہتا ہے کہ حماس کا خاتمہ ہو اور جلد سے جلد غزہ پر اسرائیلی قبضہ ہو جائے۔ الغرض صورتحال یہ ہے کہ جنگ بندی کی سنجیدہ کوششیں کسی طرف سے بھی نہیں کی جارہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے تمام ادارے اس وقت بے بس نظر آرہے ہیں۔ خیر دونوں بڑی جنگوں کے بعد آج تک یہ دنیاکسی بڑی جنگ کی طرف تو نہیں گئی مگر دنیا بھر میں چھوٹی چھوٹی جنگوں امن برباد کرنے کی خاصی کوششیں کی ہیں، ایساشاید اس لیے بھی ممکن ہوا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد اقوام متحدہ جیسی بڑی اوردیگر ذیلی تنظیموں نے دو فریقین کے درمیان کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیا۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک کی کمزور سی تنظیم او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) بھی اپنا وجود رکھتی ہے، جو آج تک کوئی بڑا اور مشترکہ فیصلہ نہیں کر سکی اور مذمتوں کے ساتھ کام چلانے پر ہی اکتفا کیا۔ جیسے حالیہ اسرائیل فلسطین کشیدگی کے حوالے سے او آئی سی کا اہم اجلاس ہوا جس میں اُسے کلیدی کر دار ادا کرنا چاہیے تھا وہیں محض 20نکاتی ایجنڈے پر ہی اکتفا کیا گیا۔ یہ اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا جہاں اسرائیلی کی ’غیر انسانی جارحیت‘ کو فوری روکنے اور بین الاقوامی برادری سے اسرائیل کے ’احتساب‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے حالانکہ یہ اجلاس سعودی عرب اور پاکستان کی دعوت پر بلایا گیا تھا۔نہ اس اجلاس میں امریکا کے لیے کوئی سخت پیغام دیا گیا اور نہ ہی اسرائیل پر اس کا کوئی اثر ہوا۔ ویسے تو میں پہلے ہی کہتا ہوں کہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی سبھی ایک دوسرے کے ساتھ مفادات کے لیے جڑے ہوئے ہیں، آپ کہیں مذہب کی وجہ سے انہیں جڑا نہیں دیکھیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا محسوس کیا جارہا تو بظاہر او آئی سی کے وجود کا کوئی جوز ہی نہیں رہتا۔ آپ یقین مانیں کہ اُس وقت دل پھٹ گیا جب زخمیوں سے اٹے غزہ کے 2بڑے ہسپتالوں میں اسرائیلی بمباری کی گئی ، جس میں ہزار سے زائد فلسطینی ڈاکٹرز اور زخمی افراد مارے گئے جو زیر علاج تھے۔ ان حملوں میں بچ جانے والے افراد ابھی تک صرف اسی وجہ سے قومہ میں ہیں کہ اُن کے ذہن سے بچوں کی چیخوں کی آوازیں نہیں نکل رہیں۔ لیکن او آئی سی کی طرف سے عملاََ کوئی پھر بھی کوئی بڑا اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ نہ کوئی ایسا اعلامیہ جاری کیا گیاکہ اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جائے اور نہ ہی کہیں سے اعلامیہ جاری ہوا کہ جوبائیڈن سے ملاقات کے لیے کوئی وفد ہی بھیجا جائے۔ آپ کو حقیقت بتاتا چلوں کہ جس کے لیے میں کالم لکھنے پر مجبور ہوا ہوں وہ یہ ہے کہ اب تک او آئی سی کی جانب سے جتنے بھی فیصلے کیے گئے اُن کا معیار یہ تھا کہ اُس میں سے99فیصد آج بھی زیر التوا ہیں۔ اور پھر یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے، اُنہیں حل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم کے بڑے بڑے ممالک خود مختار ہونے کے بجائے مغربی قوتوں کی چھتر چھایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، ترکی، ملایشیا ، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے امیر اور اسلحہ سے مالا مال ممالک بھی مغربی ممالک کی مرہون منت ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ تنظیم اسلام کے نام پر بنی لیکن اس میں موجود تمام اسلامی ممالک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مفادات جڑے ہیں اور یہ ممالک انہی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہرحال آپ دنیا کی طاقتور تنظیموں کے مقابلے میں او آئی سی کو دیکھیں تو یہ کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہے، نہیں یقین تو آپ یورپی یونین کو دیکھ لیں۔اس تنظیم میں یورپ کے 29ممالک جڑے ہیں لیکن یہ دنیا کی سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک کو بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کرنے سے روک سکتی ہے۔ اسی لیے یہ دنیا میں حکم چلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی جیسے گزشتہ سال یورپی یونین نے قرار داد منظور کی کہ جب تک پاکستان اپنی شرائط پوری نہیں کرتا پاکستان کا جس ایس پلس کا درجہ ختم کر دیاجائے،پاکستان متحرک ہوا اور فوری طور پر یورپی یونین کو منانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں۔ یورپی یونین ہی نے چین کے کئی عہدیداروں پر صوبہ سنکیانگ کے ویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا اعلان کیا ، چینی حکام نے فوری طور پر یورپی یونین کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور پابندیوں پر نرمی اختیار کرنے کے لیے کہا۔ یورپی یونین ہی نے بھارت میں ہونے والے امتیازی رویوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بھارتی حکومت کو انتباہ کیا، جس کے بعد نمایاں طور پر پرتشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی۔ مطلب یورپی یونین کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ امریکا بھی اس تنظیم کی ناراضگی مول لینے سے ڈرتا ہے۔بہرکیف شاید فلسطینی بھی اس بات کواسی دن ہی سمجھ چکے تھے کہ او آئی سی سے ان کو مزید کوئی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔تبھی حماس نے اپنے تئیںاتنا بڑا حملہ کر دیا جس کا خمیازہ ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین کی شہادت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذااو آئی سی کے قائم رکھنے کا جواز کیا تھا تاکہ کوئی ملک یہ نہ سمجھے کہ او آئی سی مغرب ہی کی کٹھ پتلی جماعت ہے، جس سے ہم جیسا چاہیں اور جب چاہیں بیان دلوا سکتے ہیںجو دنیا پر تو اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ مسلمان ممالک کے لیے بھی وہ زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔ ٭٭٭٭٭