نواز شریف کی واپسی کا ن لیگ کو کتنا فائدہ ہوگا؟ نواز شریف اپنی واپسی پر کتنے ثمرات سمیٹیںگے؟ کیا لاہور اور سینٹرل پنجاب چار سال پہلے کی طرح ہیں یا سیاسی کروٹ اپنی الگ ہی جھلک دکھائے گی؟ ان سوالات اور اس طرح کے بیشتر سوالات کے جواب کا وقت آن پہنچا ہے، ایک بات سیاست کی پیشانی پر درج نظر آ رہی ہے کہ انتخابات کروانے پڑیں گے، وجہ موجودہ نامساعد حالات ہیں۔ سو کسی نہ کسی کو عوام کی "دعائیں" سمیٹنے کیلئے اپنا چہرہ سامنے لانا ہوگا۔ اقتدار کی چاہ ایسی ہے کہ سیاستدان قطار در قطار اس کیلئے تیار ہیں۔ سنا ہے: جناب مرد حر نے گارنٹی دی ہے، موقعہ دیا جائے، حالات من و عن لے کر رواں دواں ہونے کو تیار ہیں۔ تعجب نہیں! سکندر مرزا سے آج تک یہی کھیل جاری ہے، بلاشبہ اقتدار کے کھلاڑیوں کو عزت کے علاوہ ہر شے درکار ہے۔ جسے عزت درکار ہوئی، وہ کوچہ سیاست میں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ آج کے کالم میں ایسی بے رحم سیاست اور بے رحمانہ اقتدار کے کھیل پر قلم کی سیاہی بہانے کی سکت نہیں کیونکہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد عالم اسلام کی بے حسی پر دل گرفتہ ہوں۔ وقت کے دھارے نے ازسرنو ثابت کیا بلکہ پوری ہولناکی سے اعلان کیا کہ امریکہ اور عالمی استعماری طاقتوں کو اسلامی دنیا میں کیسے حکمران چاہئیں!شب ظلمت ٹلتی ہے نہ کسی کو اس کے ڈھلنے کی جستجو ہے۔ خیر نواز شریف چار سال بعد واپس آ رہے ہیں اور ن لیگ کو اپنی کھوئی قوت کی بحالی کا آخری موقع نظر آ رہا ہے۔ شائد یہ خواب، خواب ہی رہ جائے۔ 16 ماہ بطور وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک و ملت کی جتنی "خدمت" کر رکھی ہے، اس کا خیمازہ بھی آخر کسی نے بھگتنا ہے۔ نواز شریف کی واپسی پر عوام کا قبل از وقت رد عمل اور ن لیگ کی ان کے استقبال کی غرض سے عوام سے نئی نویلی اپیلیں اس بات کی دلیل ہے کہ’ سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا۔کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘ والی کیفیت کو ن لیگ سمجھ چکی ہے۔ اس تناظر میں ن لیگ کو نواز شریف کی واپسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن نواز شریف جو تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، انھیں اپنی اگلی نسل کی سیاست کی زیادہ فکر ہے۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز ان کی اولاد میں سے واحد ہیں جو کارزارِ سیاست میں اتر چکی ہیں جبکہ ن لیگ میں وہ شہباز شریف کے صاحبزدے حمزہ شہباز کی نسبت زیادہ کرواڈ پلر ہیں۔ ن لیگ کا کارکن ان کو زیادہ پسند کرتا ہے جبکہ حمزہ شہباز اپنے والد کے وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کا فائدہ اٹھا کر پارٹی تنظیمی امور اور پارٹی ٹکٹوں وغیرہ کی تقسیم کے مراحل میں مریم نواز سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ اس وقت ان دونوں کی ذات سے ن لیگ کو کوئی فائدہ نہیں، شہباز شریف کی جس پنجاب سپیڈ کے نعرے لگائے جاتے تھے، 16 ماہ کی وزارت عظمیٰ کی صورت میں اس کا بھانڈہ بھی بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔ فیصل آباد میں آخری بلدیاتی انتخابات کے دوران رانا ثناء اللہ اور چوہدری شیر کے مابین اختلافات کی صورت میں یہ حقیقت بھی سب پر ہر زاویے سے آشکار ہوچکی کہ ن لیگ میں شہباز شریف اور نواز شریف کا الگ الگ دھڑا ہے۔ جس کی بنیاد حمزہ شہباز اور مخترمہ مریم نواز ہیں۔ بہرحال ن لیگ کے پاس آخری ٹرمپ کا پتا نواز شریف کی واپسی ہے۔ نواز شریف عوامی سطح پر چار سال بعد ن لیگ کی سیاسی پوزیشن دیکھ کر نہ صرف مایوس ہونگے بلکہ فطری سی بات ہے: جذباتی بھی ہونگے۔ جذبات اور مایوسی کا عنصر انھیں ملاپ کھا کر ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا والا مزاحمتی بیانیہ اپنانے پر مجبور کرے گا مگر وہ سزا یافتہ مجرم ہیں، تاوقت ان کے مینار پاکستان جلسہ کے حوالے سے تنقید جاری ہے، مزاحمتی بیانیہ اپنانے کی صورت میں جبکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد پرانے کیسزز پر نظر ثانی وغیرہ کی اپیلیں دائر نہیں ہوسکتیں، چار سال بعد نواز شریف درپردہ سمجھوتے کو فراموش کرنے کی جسارت کیسے کر سکتے ہیں۔ گویا اس مقصد کیلئے 18 ستمبر کے بیان کے بعد ن لیگ کیلئے جو ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس کو ذہین میں رکھ کر مفاہمت کے تحت کوئی ڈرامائی بیانیہ اپنانا ہوگا، محض چئیرمن پی ٹی آئی پر تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا! پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت اس بات کا ثبوت ہے، ایک نقطہ اور اہم ہے کہ ن لیگ جس طرح پنجاب سپیڈ اور اسحاق ڈار کی فہم و فراست کے نعرے بلند کرتے ہوئے اس زعم کا شکار تھی کہ بس دودھ اور شہید کی نہریں بہنے کے بیچ میں شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے اقتدار میں آنے تک کا وقت رکاوٹ ہے، اب نواز شریف کی واپسی کا زعم ہے، اس کی قلعی بھی کھل جائے گی، نواز شریف زمینی حقائق سے آگاہ نہیں اور دیگر کا خیال ہے کہ ان کی واپسی سے سب بہتر ہوجائے گا۔ مینار پاکستان کے جلسہ میں چاہے ایک کڑوڑ افراد کو جمع کر لیا جائے، اس سے ووٹ پڑنے والا نہیں، کس طرح مجمع جمع کیا جائے گا، سب جانتے ہیں، نواز شریف کو ملک کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے، وہ ن لیگ کو کم از کم اتنا زندہ رکھ سکتے ہیں کہ ان کی صاحبزادی کا کچھ نہ کچھ سیاسی مستقبل رہ سکے مگر اس طرح اقتدار میں داخل ہونے سے ن لیگ کی سیاسی ساکھ مزید مجروح ہوگی، ان کی سزا اور انتخابی اہلیت کی بحالی الگ سوال اور تنقید کے دروازے کھولے گی۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد انھیں خود احساس ہوگاکہ پنجاب بہت بدل چکا ہے، موجودہ پنجاب وہ پنجاب نہیں جو چار سال پہلے نواز شریف چھوڑ کے گئے تھے جہاں ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ موجودہ پنجاب حقیقی آزادی کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے۔ زندہ دلان لاہور اور دلاور پنجابیوں کی اکثریت کے دل پی ٹی آئی کے دھڑکتے ہیں۔ خوف، بھوک، مہنگائی اور غربت کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں شاہی سیاست اور اقتدار کے حصے میں نفرت کے سوا کیا آسکتا ہے؟ بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔