بدھ کے روز برادرم احسان چھینہ نے حلقہ ادب کی طرف سے مردم خیز شہر گجرات میں وارث شاہ قومی پنجابی کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا۔احسان چھینہ پنجابی کی خدمت میں احباب کو بڑی مستعدی سے شریک قافلہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اختر حسین سندھو کی ہنگامی مصروفیت کی وجہ سے خاکسار کو صدارت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ڈپٹی کمشنر گجرات صفدر حسین ورک ،صدر گجرات چیمبر آف کامرس چودھری فراز،ممتاز صنعتکار و دانشور جناب افضل گوندل، جناب چودھری فاروق آف جلال پور جٹاں، مئیر گجرات طاہر مانڈا،مہر امتیاز احمد ،معروف دانشور افتخار کالروی نے اظہار خیال کیا۔ درمیان میں وقفے وقفے سے برادرم عمران شوکت اپنے والد شوکت علی مرحوم کے انداز میں ہیر سناتے رہے۔ استاد سجاد بری، فیاض شاہ ا ور شبیر وڑائچ نے وارث شاہ کا کلام روائتی دل نشیں انداز میں پیش کیا ۔زمانہ نیوز کے سی ای او صابر بخاری کی ہمراہی نے سفر یادگار بنا دیا۔صدر نشست کے طور پر میری باری آخر میں تھی۔ میں نے لکھے پوائنٹ ایک طرف رکھے اور براہ راست سامعین سے مخاطب ہونے کا فیصلہ کیا۔میں نے آغاز یوں کیا : ’’ایک دوست نے نومولود بیٹے کا نام کسی قدیم پنجابی شخصیت کے نام پر رکھنے کے لئے مدد کا کہا۔ میں نے ’’سلابل‘‘ تجویز کیا۔ سلابل چار ہزار سال پہلے گندھارا کی سلطنت کا بادشاہ تھا۔ سلابل کا مطلب انتہائی طاقتور اور پرعزم ہے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو اس وقت پنجاب‘ سپت سندھو اور اس بھی پہلے شائد کسی اور نام سے جانا جاتا تھا لیکن یہ طے ہے کہ چار ہزار سال پہلے آج کا پورا خیبر پختونخوا ‘دہلی‘ ہریانہ‘ کشمیر‘ ہما چل کے کچھ علاقے اور مشرقی و مغربی پنجاب ملا کر ایک ہی ریاست رہی ہے۔ چار ہزار سال پہلے کا دور اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس وقت گندھارا عروج پر تھا اور ہڑپہ انجانی مصیبت کے باعث برباد ہو رہا تھا۔ دونوں علاقوں میں دو مختلف تحریری خط رائج تھے۔ گندھارا کا خط اشوک عہد میں پتھروں کی لاٹوں پر نقش کر کے شاہرائوں اور اہم مقامات پر آویزاں کیا گیا۔ یہ خط سلابل کے عہد سے کچھ مختلف زبان کا ہو سکتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان تحریری نمونوں کو ماہرین پڑھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے چار ساڑھے چار ہزار سال پہلے والا ہڑپہ آباد رہتا تو اس کی زبان اور خط میں رونما ہونے والی تبدیلی کو بھی آج پڑھنے میں کامیابی مل جاتی۔ پنجاب کے ان دونوں علاقوں کی تہذیب شاندار تھی۔ ہڑپہ کے آثار جہاں سماجی ترقی‘ شہری شعور اور اجتماعی زندگی کی صاف ستھری منظم شکل دکھاتے ہیں ٹیکسلا یا گندھارا کے نمونے دوسری طرف حکمرانی‘ ریاست اور شہری کے تعلقات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ پنجابی کئی ہزار سے ہیں۔ یہ ہزاروں سال کی مدت 50سے 78ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں اگر سندھ‘ بلوچستان یا خیبر پختونخوا کے کچھ لسانی گروہ اپنی قدامت کے متعلق پنجابیوں سے قدیم ہونے کا دعویٰ کر لیں۔ میں نے کوشش کی کہ پنجاب کی قدیم زبانوں سے آگاہ ہو سکوں۔ مجھے لگتا ہے کہ سنسکرت نے پورے ہندوستان کے ساتھ پنجاب کو بھی علمی طور پر متاثر کیا ۔ اردو ہندی وغیرہ توکل کی باتیں ہیں۔ صدیوں تک یہاں سنسکرت رہی۔ اس وقت مقامی بولیوں اور پراکرت بھاشا میں سنسکرت کے الفاظ زیادہ تھے۔ یونانی آئے تو کچھ ان کی بولی کے الفاظ پنجابی میں شامل ہو گئے۔ ترک اور وسط ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں نے مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے رابطے کی نئی زبان کی تشکیل دی۔ یونانی اثرات ختم ہونے کے ساتھ اس زبان کے الفاظ متروک ہو گئے۔ ترکی اور وسط ایشیا میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کے ہزاروں الفاظ پنجابی کا حصہ بن گئے۔1997ء میں ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی کتاب ’’فرہنگ مشترک شائع ہوئی۔ مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ اس کتاب میں پنجابی‘ دری ‘ ازبک‘ آذری و دیگر زبانوں کے 10ہزار الفاظ چنے گئے جن کا ان تمام زبانوں میں ایک ہی مطلب تھا۔ املا میں معمولی فرق کہیں کہیں ضرور تھا۔ ان دس ہزار الفاظ میں سے زیادہ نہیں تو 9ہزار اب بھی ہمارے استعمال میں ہیں۔ اب ایک قیاس کرتے ہیں۔ ان نو ہزار لفظی مداخلتوں کو آج کے ذخیرہ الفاظ سے نکال دیتے ہیں۔ پھر ان قدیم اور متروک مقامی لفظوں کو تلاش کرتے ہیں جن کے متبادل کے طور پر یہ دس ہزار الفاظ پنجابی زبان کی ڈکشنری میں شامل کئے گئے تھے۔ ہمارے سامنے اس ردوبدل کے بعد ایسی زبان آ جائے گی جس میں انسانی ضرورت کے لئے ہر لفظ موجود ہو گا لیکن شائد ہم ا سے مکمل طور پر ناما نوس اور اجنبی قرار دے کر مسترد کر دیں۔ اب ذرا اس سے بھی پہلے کے زمانے میں جاتے ہیں۔ چھ ہزار سال پہلے سنسکرت کے جو الفاظ مقامی بولیوں کا حصہ بنائے گئے انہیں نکال دیتے ہیں۔ تب دراوڑی‘ پالی‘ مُندری زبانوں کے الفاظ ہماری لسانیاتی دولت ہوا کرتے ہوں گے۔ میں نے مقامی ادب کے قدیم ترین نمونے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پرانی ویدک کتھائیں ہیں، مہا بھارت وغیرہ۔ پھر بکرما جیت عہد کی کہانیاں ہیں۔ یہ سنکسرت کا عہد ہے۔ اس سے پہلے پنجاب کے لوگ یقینا گونگے نہیں تھے۔ اس وقت بھی کوئی بجھارتیں‘ قصے شعری نمونے‘ منتر اور تحریری نمونے ہوں گے۔ ہمیں ان قصوں کی ضرورت اس لئے آ پڑی کہ خطے کی کلاسیکل ادبی روایات کی قدامت کا اندازہ کیا جا سکے۔ کوروکشیتر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ستیندر سنگھ نور کی تحقیق بتاتی ہے کہ تامل اور تیلگو زبانوں میں محققین نے ایسے دو ہزار الفاظ تلاش کئے ہیں جو پنجابی الاصل ہیں۔(جاری ہے)