جمہوری ملک ہونے کے باوجود وطن عزیز میں آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد ایک معمہ بنا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہیلیکن اس بارے میں کچھ حلقوں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے مصداق الیکشن کمیشن نے آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، اس پر جشن منایا یا ماتم کیا جائے؟ حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی، اوپر سے خالص دل کے جذبات بیان کرنا سہل نہیں، پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کروانے کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ کے بجائے مہینے کا تقرر باعثِ حیرت ہے۔ آئین الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا پابند بناتا ہے۔ پی ٹی آئی ترجمان نے کہا کہ جنوری کی کوئی بھی تاریخ 90 روز کی آئینی مدت سے باہر ہوگی۔ 90 روز میں انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، حتمی فیصلے تک 90 روز سے باہر تاریخ کو قوم کیلئے قبول کرنا ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ موقف بھی درست ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے تحت مطلوب ماحول قائم کرنے میں ناکام ہے۔ پی ٹی آئی انتخابی عمل کی سے بڑی فریق سیاسی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی ترجمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کو انتخاب سے باہر کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے، شفاف الیکشن ہی ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی واحد سبیل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عام انتخابات سے متعلق اعلان پر تحفظات برقرار ہیں۔ چئیرمن پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران الیکشن کمیشن کے انتخابات کے بارے میں جو موقف اپنایا ہے، اس سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی خفیہ ڈیل کے بہت سارے راز کھل کر سامنے آئے ہیں اور الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھا ہے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن کو کم از کم انتخابی ماہ کا اعلان کرنا پڑا اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو مراسلے ارسال کیے گئے ہیں کہ انتخابات کی تیاریاں شروع کی جائیں لیکن پیپلز پارٹی کو آئندہ مجوزہ ن لیگ کی حکومت میں اپنا حصہ چاہئے، لہذا تنقید اور مخالف کا خوف برقرار رکھا جائیگا۔ جب تک شراکت اقتدار کا کوئی فارمولا طے نا پا جائے، تاہم جہاں شہباز شریف چند گھنٹوں قیام کے بعد دوبارہ لندن چل دیئے اور مخترمہ مریم نواز بھی گوروں کے اس دیس جا پہنچی ہیں، جس روز الیکشن کمیشن نے انتخابی ماہ کا اعلان کیا بلاول دبئی میں اپنا 35 واں جنم دن منانے کی غرض سے موجود تھے، سو پیپلز پارٹی مجلس شوریٰ کے رہنماؤں نے ان سے رابطہ کر کے انہیں الیکشن کمیشن کے اعلان پر تحفظات سے آگاہ کیا، جس کے بعد قیادت نے پارٹی سے مشاورت اور مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، اب پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی پر ہوگا، جس میں الیکشن کمیشن کے اعلان پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن کا اعلان خلاف آئین اور قابلِ قبول نہیں ہے۔ پارٹی کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی امید تھی، الیکشن کمیشن کو تاریخ اور شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی اب موقف اپنائے گی کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق الیکشن نہ کروانے پر جوابدہ ہونا پڑے گا، مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس عوام میں جانے اور عدلیہ سے رجوع سمیت مختلف آپشنز پر غور کرے گا اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بالخصوص اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں میں بالعموم اتحاد غیر فطری ہے، یہ محض پی ٹی آئی کے خوف میں اتحاد کے بندھن میں بندھی ہیں۔ باقی سیاسی ڈرامے اور نورا کشتی ان کا پرانا مشغلہ ہے، لہذا ایک دوسرے پر ڈرامائی تنقید میں ووٹر کو متحرک رکھنے کی غرض سے ان کی جانب سے کسی تک جانا انوکھی کی بات نہیں۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر احباب اور ن لیگ کے رہنماؤں کا عام موقف ہے کہ آصف علی زرداری کی مشاورت سے بلاول سارا کھیل کھیل رہے ہیں تاکہ آئندہ دنوں میں لولی لنگڑی جمہوریت بھی قائم رہ سکے۔ اس تناظر میں نیب ترامیم کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بند کیسز کا جو دوبارہ جائزہ لیا گیا ہے، پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں کہ سابق چیف جسٹس نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا، اس بات میں کچھ صداقت تو ہے کیونکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا حکم ایک فیصلے کی صورت میں دیا تھا، اس پر عملدرآمد نہیں ہوا اور ادھر نیب ترامیم کیس کے فیصلے کی روشنی میں اچانک پھرتی؟ یہ خیال بھی درست ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کو مکمل کلین چٹ دی جانی مقصود ہو۔ اس نقطے کو نظر انداز البتہ نہیں کیا جاسکتا کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں جیسے پیپلز پارٹی جو ڈبل گیم کھیل رہی ہے جس کا ٹریلر بلاول کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ نیب ترامیم کیس کے بعد نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف کیخلاف رمضان شوگر ملز اور نواز شریف کیخلاف پلاٹ الاٹمنٹ کیس دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے، رانا مشہود کیخلاف پنجاب یوتھ فیسٹیول، سابق وی سی پنجاب یونیورسٹی مجاہد کامران کیخلاف کیس دوبارہ کھلنے کا امکان ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور محکمہ معدنیات کرپشن کیس دوبارہ کھلنے کا امکان ہے، سعد رفیق اور سلمان رفیق کے خلاف پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس بھی دوبارہ کھل سکتا ہے، پولیس کے چار افسران کے خلاف زیر تفتیش کیس بھی دوبارہ شروع کئے جا سکیں گے، سابق ایکسائز انسپکٹر خواجہ وسیم کے گھر سے 26 کروڑ روپے برآمد ہونے کا کیس بھی کھل سکتا ہے، سب سے پہلے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور پلانٹس کیس سماعت کیلئے مقرر ہوا، ان حالات میں الیکشن کمیشن کا معاملہ انتخابات تک محدود نظر نہیں آتا، نگران حکومت کے تیور بھی حالات کا کچھ اور ہی پتہ دیتے ہیں۔