نیرہ نور نے کہا جیساکہ نورالہٰدی شاہ نے بتایا جو کچھ ہے فقط حاضر سانس ہے نہ اس سے پہلے کچھ ہے نہ اس کے بعد کچھ ہے۔ یہ روحانی انکشاف اس پہ اس وقت ہوا جب اسے موسیقی کی دنیا کو خیرباد کہے ایک مدت ہو چکی تھی۔ موسیقی اس نے کیوں چھوڑی۔ اپنے نفس کو کچلنے کے لیے۔ اور یہ بھی ہے کہ مشرق ہو یا مغرب کیوں ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کی حقیقت دفعتاً گلوکاروں اور موسیقاروں پر ہی منکشف ہوتی ہے۔ گاتے گاتے یکدم گانے کو ترک کردینا یا مذہبی گیتوں تک ہی خود کو محدود کرلینا‘ کیوں ایسا ہوتا ہے؟ جنید جمشید کے ساتھ یہی ہوا اور یہی ہوا نیرہ نور کے ساتھ اور بھی بہت سے نام ہیں ۔ کیا گاتے بجاتے کوئی سر کسی الوہی سر سے جا ملتا ہے اور پھر زندگی بدل جاتی ہے گلوکار یا گلوکارہ کی۔ نہیں جانتا ،لیکن کچھ نہ کچھ ہوتا ضرور ہے۔ اور یہی نیرہ نور کے ساتھ ہوا۔ ایک سادگی پسند عورت جو سٹوڈیو میں ادب سے بیٹھ کے گاتی گنگناتی تھی۔ ’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے ‘‘جو چیزیں مقابل آئیں۔ ان ہی میں کوئی ایسی چیز بھی تھی جس نے اسے گائیکی کی دنیا سے باہر کر دیا۔ جنید جمشید نے جب گٹار ایک طرف رکھ کے مذہبی چولا پہنا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی۔ کیا آدمی اپنے آپ کو مار دیتا ہے اور اندر سے کوئی نیا آدمی جی اٹھتا ہے۔ یہ کون ہے؟ اور وہ کون تھا؟ کس نے کس کو مارا اور کون اس وجود میں سے نکل گیا اور اس کی جگہ کس اجنبی نے لے لی۔ یہ سارے بھید بھائو ایسے ہیں کہ کھلتے ہی نہیں آدمی پر۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے۔ سمجھ میں اس لیے نہیں آتا کہ ہم باہر سے دیکھتے ہیں جس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا ہے اس کے اندر اترنا ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے اور جس کے ساتھ ہوتا ہے وہ بھی بے بس ہی ہوتا ہے۔ بھلا اسے کیا خبر کہ اس کے اندر جو کچھ ہورہا ہے وہ کون کر رہا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ ہاں آج سے بیس پچیس سال پہلے میں نے ایک کالم لکھا تھا ’’نیا جنم‘‘ اس میں لکھا یہ تھا کہ آدمی بدل سکتا ہے اور کیسے بدل سکتا ہے‘ یہ بھی بتایا تھا۔ اپنی شخصیت کی نفی کرنا‘ خود کو مسترد کردینا۔ اپنی اور دوسروں کی نظروں سے خود کو مٹا دینا گویا آسان نہیں مگر کوئی ایسا کرسکے تو وہ ایک جون سے نکل کر دوسرے جون میں داخل ہو سکتا ۔اصلی تبدیلی وہ ہے جو حقیقی ہوتی ہے جس میں آدمی کے احساسات بھی نئے نئے سے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ ایسا محسوس کرنے لگ جاتا ہے جس کا تجربہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا ہوتا۔ آدمی‘ آدمی نہیں رہتا‘ پانی کی طرح بے رنگ ہو جاتا ہے جس رنگ کے گلاس میں ڈالا باہر سے ویسا ہی رنگ نظر آنے لگتا ہے۔ وجود کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے جس سے ملو ظاہراً اس جیسے ہو جائو اور باطناً اسے اپنے جیسا بنالو۔ کیونکہ وجود ایک ہے۔ ہاں وحدت الوجود کے ماننے والے یہی کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے اور یہ جو دنیا میں اور زندگی میں جو تم تقسیم در تقسیم دیکھتے ہو‘ تنوع اور رنگارنگی میں نظر آتے ہیں وہ کچھ نہیں ہے فریب نظر کے سوا۔ اصل حقیقت ایک ہی ہے اور اس ایک اندر ہی سارے اعداد موجود ہیں۔ ایک سے سفر شروع ہو کر ارب‘ کھرب اور نیل تک پہنچ جاتا ہے لیکن ایک کی حقیقت اپنی جگہ باقی و برقرار رہتی ہے کیونکہ ہر عدد میں ایک شامل ہے۔ کہاں ہے جنید جمشید اور کہاں گئی نیرہ نور۔ یہ قطرے تھے جو بھاپ کی طرح فضا میں تحلیل ہو گئے تو یہ فنا ہے جس نے چاروں طرف سے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ ہر چیز فنا کی طرف بڑھ رہی ہے اور کوئی نہیں رہنے والا سوائے اس کی ذات کے جو خالق اور مالک ہے اس کائنات کا، اس زندگی کا۔ وہ زندگی جس میں کچھ نہیں ہے سوائے شوروغوغا کے۔ یہ ظاہر بے معنی اور حقیقتاً بے صوت۔ بے آواز۔ کیونکہ ہر آواز ڈوب جانے والی ہے۔ وہ آوازیں جو سلانے اور جگانے والی ہیں ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ کسی چیز کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ اعتبار ہے تو اسی کا۔ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اور جو کچھ ہے اسی کا پر تو ہے‘ اسی کا سایہ ہے۔ روشنی ہو تو سایہ نظر آتا ہے‘ روشنی نہ ہو تو سایہ بھی اندھیرے کا حصہ بن جاتا ہے۔ تو پھر اے لوگو! تم کیوں نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ تم ہو کر بھی نہیں ہو اور وہ نظر نہ آ کر بھی موجود ہے۔ سب اسی سے موجود ہیں جو موجود ہیں وہ بھی وجود ہی سے موجود ہیں۔ بات شروع ہوئی تھی نیرہ نور سے۔ ایک روح جو آسمان سے اتری اور اپنی آواز کا جادو جگا کر واپس آسمانوں پہ چلی گئی۔ ساری روحیں اپنے اپنے جسموں کے لبادے اتار کر ایک دن آسمانوں کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یہ حقیقت معلوم ہے مگر اعتبار اس کا کم ہے بہت ہی کم۔ کیونکہ یہ فریب پیہم نہ ہو تو آدمی کا دم نکل جائے۔ جو حقیقت ہے اس کا تمام وقت سامنا رہے تو یہ دنیا ویران اور بے رونق ہو جائے۔ لیکن کبھی کبھی سوچ لینا چاہیے۔ موت کے بارے میں۔ اپنے وجود کی حقیقت کے بارے میں اور اس بارے میں کہ ہم ایک مسافر ہی تو ہیں جو دنیا کے چھتنار برگد کے پیڑ کے نیچے کچھ دیر کو ٹھہرے ہیں اور پھر واپسی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ سارے کام ادھورے چھوڑ کر جانا پڑ جائے گا اور ایک میرے چلے جانے سے دنیا کی رونقوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ توپھرتم کدھر چلے جا رہے ہو؟ رک جائو‘ کچھ ساعتوں کے لیے رک جائو اور سوچو اس دنیا کی بے حقیقی کے بارے میں۔ یہ کہ ہم بے حقیقت ہیں اور حقیقت ایک ہی ہے اور یہ حقیقت ’’وہ‘‘ ہے۔ ’’وہ‘‘ بھی ’’وہ‘‘ بھی ہے‘ ’’میں‘‘ بھی ہے’’تم‘‘ ہے اور ’’ہم‘‘ بھی ہے۔ وہ ہمارے اندر بھی ہے اور ب اہر بھی اوپر بھی ہے اور نیچے بھی اور چار اطراف۔ لیکن ہم اسے نہیں دیکھ پاتے۔ دیکھنا ہو تو اپنے اندر کو جھانکو‘ اپنے دل کو ٹٹولو شاید وہ اندر کہیں مل جائے۔ اسے ہی پانے اور ڈھونڈنے کے لیے سادھو‘ صوفی اور درویش جنگلوں اور صحرائوں کا رخ کرتے ہیں اور جب اسے پا لیتے ہیں تو واپسی لوٹ آتے ہیں لیکن واپسی پر وہ ویسے نہیں رہتے جیسے جاتے وقت تھے۔ نیرہ نور نے جب موسیقی کو خیر باد کہا تو پھر ویسی نہیں رہی جیسی گلوکارہ ہو کر تھی اور اب تو وہ رہیں بھی نہیں۔ قطرہ سمندر میں ڈوب کر سمندر ہو جاتا ہے۔