جب سے حکومتی سطح پر بین الصوبائی بھائی چارے اور باہمی میل جول کو پروان چڑھانے کے لئے ملک کی تمام یونیورسٹیوںمیں تمام صوبوں کے بچوں کو داخلہ دینے کا اہتمام کیا ہے ، یونیورسٹیوں کے ماحول میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ کچھ تبدیلی مثبت ہے اور کچھ منفی۔مگر کیا کیا جائے کہ ہر طرح کی تبدیلی یونیورسٹی انتظامیہ کو ہر صورت بھگتنا پڑتی ہے۔ اب یہ تبدیلی یونیورسٹی کی جڑوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔پہلے تو نئے طلبا نے اپنے صوبوں کے حوالے سے کچھ کونسلیں بناتے مگر اب تو یونیورسٹیوں میں رنگ برنگی کونسلیں وجود میں آ چکی ہیں جن کا مقصد اپنی شناخت سے کچھ بڑھ کر ہے۔ اپنے علاقے کے کلچر کی ترویج کے لئے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔کلچر کے نام پر طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے اور جہاں طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے وہاں خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں۔انتظامیہ مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔پاکستان کے کئی صوبے ہیں۔ ان صوبوں کے حوالے سے کلچر کی بات تو سمجھ آتی ہے مگر اب تو ایک ہی صوبے میںیونیورسٹیوں میں گجر کونسل، میو کونسل، راجپوت کونسل، ارائیں کونسل اور جٹ کونسل بھی وجود میں آ چکی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد اور وہ بھی تنگ نظری کے حوالے سے وجود میں آنے والی کونسلیں اور گروپ ملک کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ انہیں کہیں نہ کہیںمحدود کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے ۔چنانچہ اس کا کلچر بھی اسی حساب سے بہت وسیع ہے۔کلچر ویسے بھی ایک ایسا لفظ ہے جو بڑے وسیع معنیٰ رکھتا ہے۔ کسی معاشرے کے لوگوں کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، ملنا جلنا، مہمان سے سلوک، معاشرے کی اجتماعی زندگی میں افراد کا حصہ اور کردار، اجتماوی طرز عمل، میلے ٹھیلے، کھیلیں ، شادی بیاہ کے رسم و رواج، یہ سبھی چیزیںمل کر کسی کلچر کی بنیاد رکھتی ہیں۔پنجاب میں عورتوں کی محفل ترنجن، مردوں کی محفل چوپال اور نوجوانوں کے دل پسند میلے ، میلوں کے کھیل تماشے اور بہت کچھ اس علاقے کا کلچر تھا اور ہے۔1947 سے پہلے پنجاب میں ہندو صرف 13 فیصد تھے۔ سکھ 17 فیصد اور مسلمانوں کی آبادی 70فیصد سے کچھ کم تھی۔تقسیم کے نتیجے میں پنتالیس لاکھ ہندو اور سکھ مشرقی پنجاب یا بھارت کو ہجرت کر گئے جب کہ پینسٹھ لاکھ مسلمان بھارت سے پاکستان آئیَ۔ میلے اس دور کے پنجاب کی زندہ روایت تھی اور پنجاب میں اتنے زیادہ میلے ہوتے تھے کہ جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یہ پنجاب کے میلے تھے، پنجابیوں کے میلے تھے۔ پنجاب کے ہر گائوں میں کسی پیر فقیر کا مزار تھا۔ ہر مزار پر ہر سال ایک آدھ میلہ ضرور ہوتا۔گائوں کے سب جوان چاہے ان کا تعلق کسی مذہب سے ہوتا، اس میلے میں بھرپور شرکت کرتے۔ اس وقت تک کوئی میلہ ہندو، سکھ یا مسلمان نہیں تھا۔ سبھی پنجاب کے میلے تھے۔ پنجابیوں کے میلے تھے۔میلے کے شریک لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ اس میلے کا ماخذ کیا ہے۔ میلہ تو بھائی چارے کا امین ہوتا تھا۔ سکھوں کے کیلنڈر جس کی اساس بکرمی کیلنڈر پر ہے، کے پہلے دو مہینے چیت اور وساکھ، بسنت رت یا بہار کی رت کہلاتے تھے۔ یہ بہار کے مہینے میلوں سے بھرپور ہوتے۔ اچھی فصل ہونے کے نتیجے میں جب کھیتوں میں پیلے پیلے پھول لہلہاتے تو پنجاب کے کسان خوشی سے جھوم اٹھتے ۔ کھیتوں میں بھنگڑے ڈالے جاتے جن میں مرد اور عورتیں دونوں بھرپور حصہ ڈالتے۔ ہر طرف بسنت کا میلہ منایا جاتا۔ ہندوئوں کے بکرمی سال اور سکھوں کے نانک شاہی کیلنڈر جو تقریباً ایک جیسے ہی ہیں کے مطابق نئے سال کی خوشی میں وساکھی میلہ منایا جاتا۔ سکھ کپور تھلہ میںگورونانک کے جنم دن کے حوالے سے خاص تقریبات کرتے ۔ مگر یہ نئے سال کا میلہ اب بھی بھارت میں ہر جگہ منایا جاتا ہے۔لاہور کا سب سے اہم میلہ بسنت میلہ تو مذہبی قدروں کی نذر کر دیا گیا۔ مگر لاہور کے میلے اب بھی بہت یادگار ہوتے ہیں۔ میلہ چراغاں، میلہ قدماں، میلہ داتا گنج بخش۔ میلہ پیر مکی، میلہ شاہ جمال سمیت کس کس کا حوالہ دوں ، لاہور کے چپے چپے میں جہاں کوئی مزار ہے ، وہاں میلے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہی صورت حال ہر گائوں کی ہے۔ گائوں کے میلوں میں ایک خاص کشش ہے۔ستر کی دہائی میں ہمارے کلاس فیلو سب کچھ چھوڑ کر اپنے گائوں بھاگے جاتے تھے کہ میلہ ہے اور اس کی افادیت یہی تھی کہ برسوں سے بچھڑے کئی لوگوں سے میلے کے بہانے ملاقات ہو جاتی، جو عام حالات میں و اقعی بڑا کٹھن ہوتا تھا، میلے میں آ کر ان سے ملاقات جو سرور دیتی اس کا کچھ متبادل نہیں ہوتا۔ پنجاب یونیورسٹی میلے کی روایت کو اجاگر کرنے کے لئے تقریباً ہر سال کتاب میلے کا اہتمام کرتی ہے۔اس دفعہ بھی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب خالد محمود کی قیادت میں اس میلے کا اہتمام کیا گیا۔جناب خالد محمود ایک دھیمے مزاج کے بڑے با عمل اور متحرک انسان ہیں۔ ایک اچھے استاد کی طرح ہر ایک کے لئے قابل رسائی ہیں۔ان کی یہی خوبی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ان کی قیادت میں میلے کایہ عمل ایک پنتھ دو کاج کے مترادف ہے ۔ ایک تو کتابوں سے بیگانگی کی پھیلی ہوئی وبا کنٹرول کرنے کی سعی ہوئی ، دوسرا دہائیوں سے بچھڑے یونیورسٹی کے پرانے بہت سے سابق طالب علم دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔تین دن سماں میلے کا ہوتا ہے خدمت ادب کی ہوتی ہے۔ لوگوں کو کتابیں بازار کی نسبت کافی کم ریٹ پر مل جاتی ہیں۔ ہر سٹال پر کوئی نہ کوئی مصنف بیٹھا ہوتا ہے جس سے باالمشافہ ملاقات لوگوں کے لئے ایک اچھا پیغام ہوتا ہے۔آج کے اس دور میں جب کمپیوٹر نے انسان کو کتاب کی اصلی صورت سے بیگانگی عطا کی ہے ۔ کتاب میلے جیسے میلے ہمیں جہاںپنجاب کی تقافت سے واقفیت اور اس کی عملی شکل سے آشنا کرتے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو واپس کتاب کی طرف لوٹ جانے پر بھی مائل کرتے ہیں۔ میلہ گزر گیا مگر اس کے اثرات بہت دنوں تک لوگوں کے ذہنوں میں سمائے رہیں گے۔وائس چانسلر جناب خالدمحمود اور ان کے رفقا اس نیک اور شاندار اصلاحی کام کے لئے قابل تحسین ہیں کہ ایسے اقدامات یونیورسٹی میں بھرپور زندگی کا پیام ہوتے ہیں۔