حاکمین وقت کو مبارک ہوکہ انہوں نے معزز عدالتوں کے جج صاحبان کو آپس میں لڑانے کے اہم ترین منصوبے کونہایت کامیابی کے ساتھ ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ہے۔ آئین میں درج ہے کہ جج صاحبان پر کسی بھی قسم کے الزام کی تحقیقات کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے۔ ہمیشہ سے جج صاحبان کا مقدمہ اسی فورم پر لایا جاتا ہے لیکن اب نہایت سہولت کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کو نظر انداز کر کے انکوائری کے نام پر ایک اور فورم تشکیل دیا گیا ہے جس میں تین ججز بیٹھ کر اپنے ساتھی ججز کے بارے میں تحقیقات کریں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے کنڈکٹ کا فیصلہ کر رہے ہوں گے جبکہ سپریم کورٹ کا ایک جونیئر جج اپنے چیف جسٹس اور اس کے خاندان کی سیاسی وابستگیوں کا حساب کتاب کرے گا۔ اس کے نتیجے میں جو کھچڑی پکے گی وہ ادارے کی مزید تباہی لائے گی۔ حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جو تین رکنی کمیشن بنایا ہے اس کے بارے میں اول تو ایک رائے یہ ہے کہ چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر اس کے کسی جج کو ایسے کسی کمیشن میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسے تو کل کو حکومت اپنی مرضی سے کوئی سے تین جج بٹھا کرانہیں کمیشن کا نام دے گی اور اپنی مرضی کا کیس ان کے سامنے لگا دے گی، یوں عدالت کا نظام تباہ و برباد ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ گزشتہ چند مہینے میں منظر عام پر آنے والی بے شمار آڈیوز میں سے کمیشن کو صرف آٹھ ایسی آڈیوز پر تحقیقات کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے جو چند مخصوص ججز اور ایک مخصوص سیاسی شخصیت کے خلاف جاتی دکھائی دیتی ہیں۔مقصد واضح ہے سپریم کورٹ کے اُن ججز پر دبائو ڈالا جائے جو آئین و قانون کے مطابق نوے دن میں انتخابات چاہتے ہیں۔ جن آڈیوز پر تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا گیا ہے ان پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کا ہدف چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار،چئیرمین تحریک انصاف عمران خان ، ججز کے اہل خانہ اور چند ایک وکلا شامل ہیں۔ ٹی او آرز میں حکومت نے بڑی بے باکی سے لکھا ہے کہ کمیشن تحقیقات کرے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے داماد لاہور ہائیکورٹ کی عدالتی کارروائی پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یعنی اسلام آباد ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں تحقیقات کریں گے کہ وہ اپنے داماد اور اہل خانہ کے دبائو میں فیصلے کر رہے ہیں یا نہیں۔اسی طرح سپریم کورٹ کے دوسرے نمبر کے جج اپنے سے سینئر جج اور چیف جسٹس کے بارے میں تحقیقات کریں گے کہ کیا وہ اپنی ساس کے دبائو میں فیصلے دے رہے ہیں۔ اندازہ کیجیے ایسا کمیشن بنا کے حکومت نے ججز کے احتساب کے نظام اور طریقہ کار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل کے وجود کی دھجیاں اُڑا دی ہیں اور مستقبل کے لیے ایسی روایت قائم کر دی ہے کہ کسی حکومت نے کسی بھی جج سے حساب برابر کرنا ہو تو نیچے سے کسی جونئیر جج کو اٹھا کر کمیشن بنا دیا جائے اور پھر وہی کمیشن انصاف کی مثال قائم کرے۔ ایک حیران کن سوال یہ بھی ہے کہ ٹی او آرز بناتے وقت انہی آٹھ مخصوص آڈیوز کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا۔ مریم نواز کی آڈیو جس میں وہ صحت کارڈ بند کرنے کے احکامات دیتے سنائی دیں یا پھر وہ آڈیو جس میں وہ اپنی میڈیا مینجمنٹ کی بات کر رہی تھیں یا وہ آڈیوز جس میں مریم نواز اپنے داماد کے لیے بھارت سے مشینری امپورٹ کی خصوصی اجازت لینے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالتی دکھائی دیں ، ان سب آڈیوز پر تحقیقات کیوں نہ کرائی گئیں۔ حکومت یہ تو چاہتی ہے ماضی بعید کے گڑے مردے دوبارہ اکھاڑے جائیں ، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی تحقیقات ہوں ، نواز شریف کی نااہلی کے معاملے پر عدالتیں معافی مانگیںلیکن وہ شہباز شریف کی ملک قیوم کے ساتھ آڈیو لیک کی تحقیقات کیوں نہیں چاہتی جس میں موجودہ وزیر اعظم ہائیکورٹ کے جج پر اپنے سیاسی مخالفین کو مرضی کی سزا دلوانے کی فرمائش کر رہے تھے۔ ایک بحث یہ بھی ہے کہ کسی کی آڈیو ریکارڈ کرنا غیر قانونی ہے۔جبکہ ایک کام ہی غیر قانونی ہے تو اس کے لیے کمیشن کیسے بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک پرانا موضوع پھر سے نیا ہو کر مارکیٹ میں آ چکا ہے۔سوال اٹھایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کواُس وقت جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے،ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا تھا۔ اس حوالے سے اخبار نے دعویٰ کیا ، عمران خان نے تردید کی مگر حکومت نے اسے موضوع بنا لیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے اس لیے ہٹایا تھاکہ انہوں نے عمران خان کو ان کی اہلیہ کی کرپشن کے ثبوت دیے تھے۔ شہباز شریف کی حکمت عملی بتاتی ہے کہ وہ اسے باقاعدہ ایک سیاسی موضوع بنانا چاہتے ہیں۔ کوئی حیرت نہ ہو گی کہ وہ اس پہ بھی ایک انکوائری بٹھا دیں یا پھر آڈیو لیک والے کمیشن کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے ذمہ داری دے دیں کہ پتہ چلے عمران خان نے جنرل عاصم کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے کیوں ہٹایا تھا۔اچھی بات ہے اگر حقائق قوم کے سامنے آئیں تو کیا اعتراض ہو سکتا ہے مگر ایک انکوائری اس بات پہ بھی ہونی چاہیے کہ جنرل جہانگیر کرامت کو ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا، ایک انکوائری اس بات پہ بھی ہونی چاہیے کہ BMW گاڑی کے تحفے کے ذریعے آرمی چیف کو خریدنے کی کوشش کیوں کی گئی؟ ایک انکوائری اس بات پہ بھی ہونی چاہیے کہ پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا۔ تاریخ کے اوراق ایسے تشنہ عنوانات سے بھرے پڑے ہیں۔