صاحب ! عرصہ ہوا ہم نے کسی سے متاثر ہو نے کا سلسلہ موقوف کر رکھا ہے لیکن عمر بھر یہ خاکسار جن دو چار لوگوں سے متاثر ہوا ان میں سر فہرست وہ باکمال لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے ہاں فراڈ کو بطور پیشہ اپنا رکھا ہے ۔ مجھے ان مہربانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جن کا اوڑھنا بچھونا فراڈ ہے ۔ وطنِ عزیز میں جس سطح کا کوالٹی فراڈ تخلیق ہورہا ہے وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں نظر آتا ہو ۔بیرونِ ممالک سیاحت کے دوران میں نے اس بارے میں بغور ملاحظہ کیا تو معلوم ہوا کہ اول تو اکثر ممالک میں وہاں کے کم ذوق لوگ اس اہم پیشے یعنی فراڈ سے بالکل سرے سے ہی نابلد ہیں اور نتیجتاًیہ احمق ایک انتہائی اہم’ ذریعہ آمدنی ‘سے مستقل محروم چلے جارہے ہیں ۔دوسرا اگر کہیں کچھ نسبتاً سیانے لوگ یہ کام کر بھی رہے ہیں تو وہاں بھی ہمیں بڑا ہلکا ، معمولی ، سطحی اور بودا سا فراڈ دیکھنے کو ملتا ہے اور اسے دیکھ کر بس ہنسی آتی ہے ۔ ہمارے ہاں دھوکا دہی کے عمل کے دوران ایسے اخلاص اور اپنائیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔دھوکہ کھانے والا آخر دم تک ان سے اس درجہ مرعوب اور ایسے متاثر ہوتا ہے کہ وہ کھائے گئے دھوکے کا الزام کسی پہ بھی لگا سکتا ہے سوائے اس بندے کے جو اصل میں اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ دادو تحسین دینے والوں میں وہ بندہ بھی شامل ہوتا ہے جو اس فراڈ کا ڈائریکٹ شکار ہورہا ہوتا ہے ۔ استاد غالب ؔ کا یہ شعر پڑتا نظر آتا ہے : نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و باز کو یہ لوگ کیوں میرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں میں نے جیسے عرض کیا مجھے ان مہربانوں کی زیارت اور نیازمندی کا شرف حاصل ہے جنہوں نے فراڈ کو باقاعدہ ایک فن کا درجہ دے رکھا ہے ۔ انہیں تھانے کچہریوں کا سامنا رہتا ہے مقدمے اور جیلیں بھگتنا پڑتی ہیں۔ لیکن آفرین ہے کہ یہ اپنے پیشے کی حُرمت اور آبرو کے لیے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے راستے میں آئی ہر دیوار سے ٹکرا جاتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست کو اس شعبہ کے ایک سرکردہ رکن سے واسطہ پڑا ۔اور پھر چند ہی دنوں میں اُن کا تعارف اور تعلق اس قدر بڑھا کہ لگا جیسے سالوں کی قربت ہے۔دوست بتاتا ہے کہ یہ صاحب بڑی متاثر کُن شخصیت کے مالک تھے۔صوم و صلوٰۃ کے پابند۔ایک مثالی مہمان نواز۔گفتگو میں ایسی شیرینی اور مٹھاس کہ بس سُنتے جایئے ۔ ماتھے پر بڑا سا قابل رشک مہراب ۔دوست کہتا ہے کہ ان سے مل کر میں کافی دن سوچتا رہا کہ کون سی نیکی کام آئی ہے جو ایسے فرشتہ صفت انسان سے مجھ خطا کار کو نیاز مندی حاصل ہوئی ۔سفر وحضرمیں ان صاحب کے ساتھ رہنے کا موقعہ ملا۔ ایسی ہی کیفیت میں جب یہ دوست ایک دن اُن صاحب کے گھر اُن کے وسیع دستر خوان پہ بیٹھا تھا اور وہ صاحب اس کی پلیٹ میں بالاصرار مٹن کی روسٹ چانپیں ڈال رہے تھے تو اُسی وقت ان کے فون کی گھنٹی بجی ۔انہوں نے کچھ دیر فون پہ بات کی اور پھر ایک دم مخاطب کو ’ ہولڈ ‘ کروا کے اور فون پہ ہاتھ رکھ کر وہ دوست کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ، ’’ بھائی صاحب ! میرا ایک دوست کہیں باہر جارہا ہے اور وہ جانے سے پہلے اپنا ایک پلاٹ فروخت کرنا چاہ رہا ہے ۔ اگر آپ کو اس میں دلچسپی ہے تو بتائیں یا پھر کسی اور دوست کا بھلا کر دیتے ہیں ۔ فون ہولڈ پر تھا اور یہ بات سُن کر دوست کے ذہن میں اُن کی اخلاقی صفات کی فلم چل رہی تھی۔چنانچہ اس اس بیک گرائونڈ کے پیشِ نظر اُس نے اپنی جمع پونجی کا سوچا اور اُن کی اس بظاہر بے لوث آفر پر ہاں کر دی ۔ اس پر انہوں نے فون پر مخاطب کو اوکے کر دیا۔اگلے دن وہ خود صبح صبح تشریف لائے دوست سے ایک دو کاغذوں پر دستخط لیے ایک فائل اسے تھمائی اور اتنی مناسب قیمت پر ایک اچھا پلاٹ ملنے پر اسے مبارک دیتے ہوئے کہا کہ پیسے آسانی سے دے سکتے ہیں تو دے دیں ورنہ وہ خود ہی کوئی بندوبست کر لیںگے ۔ میرا دوست اُن کے اعلیٰ اخلاق تلے دبا فوراً اُٹھا اور ڈیڑھ کروڑ کی رقم نقد اُن کے حوالے کر دی ۔ اُنہوں نے بے اعتنائی سے رقم پکڑی اور اگلے دو چار ہفتوں میں پلاٹ کی قیمت کافی حد تک بڑھنے کا کہہ کر وہاں سے چل دیئے ۔اُن کے جانے کے بعد دوست نے بیگم کو وہ فائل پیش کی اور ساتھ کہا ،’’لو ! وہ جو تم کہتی تھیں کہ ہمیں عنقریب چھپر پھاڑ کے ملے گا تویہ بات اب پوری ہونے لگی ہے ۔‘‘اُس نے پوری بات بتائی تو گھر والی کے چہرے پہ خوشگوار حیرت ، خوشی اور تفاخر سے بھرپور وہ جذبات نمایاں ہوئے جو بیگمات کے چہروں پہ اس وقت ابھرتے ہیں جب ان کی کوئی پیشین گوئی پوری ہو جائے ۔اس کے بعدکی داستاں قدرے تلخ ہے۔ دوچار ہفتے کیا دو چار مہینے گزر گیا ۔نہ کوئی پلاٹ ملا اور نہ اس کا سراغ ۔ہوتے ہوتے سال ہو گیا اور اس دوران بات اُن صاحب کے وسیع دسترخوان ، مٹن چانپ اور خوشبوئوں میں لپٹی گفتگو سے آگے نہ بڑھ سکی تو دوست نے باقاعدہ پوچھ گچھ شروع کی ۔پھر آہستہ آہستہ ہمارے دوست کا اُن صاحب سے تعلق محبت، احترام، مروت، وضع داری ، شک و شبہات اور گلوں شکووں سے ہوتا ہوا باقاعدہ الزامات اور طعن و تشنیع تک پہنچ گیا ۔بول چال ملنا ملانا موقوف ہو گیا ۔مذید کچھ عرصے بعد جب دوست نے قانونی چارہ جوئی کا تحرک کیا تو معلوم ہوا کہ اُن صاحب پہ خیر سے کوئی درجن بھر پہلے ہی فراڈ کے مقدمات درج ہیں ۔اس ہولناک انکشاف کے فوری بعد جب میرا دوست اُن صاحب کے گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ کرائے پہ رہتے تھے اور اب پچھلے کئی ہفتوں سے مکان چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔