رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان اپنی مخصوص سیاست سے الگ ہو جائیں تو معاملہ ختم ہو جائے۔ مخصوص سیاسی والی بات مبہم ہے، جو بھی سیاسی بات ہو کھل کر ہونی چاہئے، رانا ثناء اللہ کی بات سے یہ لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان سیاسی میدان میں نہ ہوں، جس کا پنجابی میں مطلب ہے کہ ’’سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کسی دوسرے کا سیاسی وجود تسلیم کرنے پر تیار نہیں، جبکہ یہی بات اُن پر بھی صادق آرہی ہے کہ (ن) لیگ بھی اپنی مخالف جماعتوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں، رانا ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کے بانی کی سوچ کا محور یہ ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، اگر اُن کی سوچ کا محور یہی تھا تو پھر اپنا بویا وہ کاٹ بھی تو رہے ہیں، اب کم از کم (ن) لیگ اور رانا ثناء اللہ کو تو اُن کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہئے، رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ہم عمران خان کے سیاسی وجود کو ملک میں فتنہ اور افراتفری سمجھتے ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ وہ بھی تو آپ کے بارے میں یہی کہتے رہے ہیں ، ماڈل ٹائون میں انسانوں کا قتل کوئی معمولی واقعہ تو نہیں تھا، سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ کس کی حکومت تھی؟ قاتل کون تھے؟ کتنے گرفتار ہوئے؟ کتنوں کو سزا ہوئی؟ اب خدا کیلئے الزام، جوابی الزام کا سلسلہ ختم کیجئے اور ملک و قوم کی بہتری کا سوچئے۔ قوم موجودہ تمام سیاستدانوں کی سیاست سے تنگ ہے، غریب پس رہا ہے، مہنگائی نے تباہی پھیر دی ہے، نصف صدی پہلے مانگنے والے فقیر، گداگر خال خال نظر آتے تھے ، آج ایک فوج ظفر موج ہے، کیا ہماری یہی ترقی ہے؟ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی طرف سے پنجاب بھر میں پتنگ بازی کے سد باب کیلئے مہم چلانے کا حکم خوش آئند ہے، پتنگ بازی سے کئی مرتبہ جانی نقصان ہو چکا ہے، اس کا سدباب ہونا چاہئے، وزیر اعلیٰ نے فیصل آباد میں پتنگ بازی سے نوجوان جاں بحق ہونے کے واقعہ کا نوٹس بھی لیا ہے اور رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ اس موقع پر اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جہاں فیصل آباد میں پتنگ بازی سے ایک آدمی کی وفات کا نوٹس لیا گیا ہے وہاں ملتان میں سلنڈر حادثے میں نو افراد کے جاں بحق ہونے کا صحیح معنوں میں نوٹس نہیں لیا گیا، لواحقین کی اشک شوئی بھی نہیں ہوئی، محترمہ مریم نواز کا لواحقین کے گھر آنے کا شیڈول تین مرتبہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ بلوچستان میں پنجاب کے نام پر مزدور قتل ہوئے، وزیرستان میں بھی وسیب کے مزدور قتل ہوئے اور ایران، بلوچستان میں بھی واقعہ رونما ہوا، اس کا بھی نوٹس لیا جانا چاہئے۔ یوم پاکستان کے موقع پر صدر آصف زرداری نے سعودی عرب کے وزیر دفاع سمیت ملٹری و سول شخصیات کو اعزاز سے نوازا، اسی طرح یوم پاکستان کے موقع پر صوبہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں سول اعزازات دینے کی تقاریب ہوئیں، تعلیم، صحت، کھیل، فن اور تعمیرات سمیت مختلف شعبوں سے منسلک افراد کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔اچھی بات ہے یوم پاکستان کے موقع پر ملک و قوم کیلئے خدمات سر انجام دینے والوں کو اعزازات دیئے جاتے ہیں۔ ہمیشہ سے طریقہ کار یہ چلا آرہا ہے کہ اعزازات دینے کا فیصلہ بیوروکریسی کی رپورٹوں اور سفارشات پر ہوتا ہے مگر روٹین سے ہٹ کر یہ بھی ہونا چاہئے کہ پاکستان کو جن لوگوں نے اپنی سرزمین اور اپنے ملک دیئے اُن کی خدمات کے اعتراف میں بھی تمغہ ہونا چاہئے، جن لوگوں نے لٹے پھٹے اور غمزدہ مہاجرین کو پناہ دی ، اپنے سینوں سے لگایا اور اپنے وسائل اُن کیلئے وقف کئے اُن کیلئے بھی اعزازات ہونے چاہئیں، ریاست بہاولپور سے بڑھ کر پاکستان کیلئے کسی نے زیادہ قربانی نہیں دی ، کیا ان خدمات کا کوئی اعتراف ہوا؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات تشنہ ہیں، آج سوشل میڈیا کا دور ہے، نوجوان سمجھدار ہو گئے ہیں، وہ ایک ایک بات کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرتے ہیں، تشویش بڑھ رہی ہے، یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کی بہتری کیلئے سوچنا زیادہ ضروری ہو چکا ہے کہ سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے، بہتری کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جا رہا؟ دہشت گردی سے لاکھوں انسانی جانیں اور کھربوں ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے، روس جب امریکہ کی طرح سپر پاور تھا تو بہت حد تک طاقت کا توازن قائم تھا مگر جب امریکہ کی ایماء پر مسلم طاقتوں نے روس کو کمزور کیا تو اس کی سزا بھی سب سے زیادہ پاکستان کو بھگتنا پڑی، ذوالفقار علی بھٹو نے درست کہا تھا کہ امریکہ کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور، انسان دوستی کے نام پر انسانوں کا قتل ہوتا آرہا ہے، انسانیت کی فلاح کا دعویٰ کرنے والوں نے انسانیت کی تباہی کیلئے مہلک ہتھیار استعمال کئے، ظاہر ہے جنگ ہو گی تو اسلحہ بکے گا، سو اس جنگ میں مغربی منڈیوں کا اسلحہ بکا، احتیاط سے کام لیا گیا کہ جنگ صرف ایران اور عراق تک محدود رہے تاکہ فرقہ واریت کی آڑ میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے مروایا جائے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے سامنے ہو رہاتھا، کیا اُن کو عقل نہیں آئی؟ یہ بھی دیکھئے کہ جنگ دو ملکوں تک رہی مگر جب پابندیوں میں جکڑا ہوا ایران کھڑا رہا تو پھر ایک اور سازش کی گئی، اس نئی سازش کے تحت دیگر اسلامی ملکوں میں فرقہ واریت کی آگ کو پھیلایا گیا۔جس کا سب سے بڑا خمیازہ پاکستان نے بھگتا اور آج بھی بھگت رہا ہے، فرقہ واریت کے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے۔