تقسیم سے پہلے لاہور بھی کلکتہ اور بمبئی کی طرح ایک فلمی مرکز تھا،اُردو اور پنجابی فلمیں بنا کرتی تھیں۔کئی فلمی نگار خانے تھے۔مگر ہوا یوں کہ1947ء سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ان میں یہاں کی فلم انڈسٹری اور نگار خانے بھی تباہ ہو گئے۔پاکستان بن گیا اور کچھ سرپھروں نے یہاں کی فلم نگری کو نئے سرے سے آباد کرنے کی کوششیں اور کاوشیں شروع کیں۔بہت مشکل تھا یہ سب کر پانا،نہ سٹاف،نہ سہولتیں،نہ سرمایہ اورنہ ہی تربیت۔جو فلمیں بنتیں وہ باکس آفس پر یا تو زیادہ نہ چل پاتیں یا بالکل ڈبہ اور فلاپ ثابت ہوتیں۔مگر کچھ فلم میکرز نے تقسیم سے قبل کے ہنر مندوں کو ساتھ ملایا اور اس طرح فلموں کا معیار رفتہ رفتہ سنبھلنے لگا۔اس وقت کے کچھ بڑے ناموں میں سے جو یاد رہ گئے۔۔۔ڈبلیو زیڈ احمد،نذیر صاحب،لقمان صاحب،منشی دِل اور انور کمال پاشا تھے۔ڈبلیو زیڈ احمد کا تقسیم سے پہلے انڈیا میں شالیمار سٹوڈیو تھا۔یہ پونا میں تھا۔احمد صاحب کے والد انگریز کے دور میں ڈی آئی جی پولیس تھے۔غالباً یہ سات بھائی تھے۔ احمد صاحب کو اُن کے والد نے فلم میکنگ کی تربیت کے لیے امریکہ بھیجا۔اُن کے ایک بھائی اب بھی بقید حیات ہیں۔اُن کا نام اقبال زیڈ احمد ہے۔اُن کا نام کبھی نہ کبھی میڈیا میں نظر آ ہی جاتا ہے۔احمد صاحب سر تا پا ایک فلم مین تھے۔اُن سے90ء کی دھائی میں بے شمار ملاقاتیں اور نشستیں ہوئیں۔وحدت روڈ پر جہاں اب مصطفی ٹائون ہے یہاں پر بہت بڑے رقبے پر ان کا ایک سٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔ڈبلیو زیڈ سٹوڈیو۔انہی ملاقاتوں میں پتہ چلا کہ فلم کی کہانی کیسے لکھی جاتی ہے۔اس کی تکنیک کیا ہوتی ہے۔سکرین پلے کیسے بنایا جاتا ہے اور مکالمے کیا دیکھ اور سوچ کر لکھے جاتے ہیں۔کھڑکی توڑ ڈائیلاگز کی فزکس اورکیمسٹری کیا ہوتی ہے۔جب کسی خیال کوبڑی سکرین پر منتقل کیا جاتا ہے تو کون کون سے مراحل درپیش ہوتے ہیں۔ہم نے بھی نئی نئی لیکچر شپ جوائن کی تھی۔لیکچر دے کر سیدھا زیڈ احمد سٹوڈیو پہنچ جاتے اور پھر شام تک اور شام کے بعد بھی احمد صاحب کی سحر انگیز گفتگو ہوتی اور ہم ہوتے۔جب قریب سے ہی کسی کمرے سے کسی نسوانی۔۔عمر رسیدہ کھانسی کی آواز آتی تو سنہرے پاندان سے پان نکال کر منہ میں رکھتے ہوئے احمد صاحب کہتے"یہ جو کھانس رہی ہے نہ یہ اپنے وقت کی مشہور ہیروئن نینا ہے"۔احمد صاحب کی شادی تقسیم کے بعد گورنر سندھ ہدایت اللہ صاحب کی بیٹی سے ہوئی تھی مگر علیحدگی ہو گئی اور اُن کی شادی نینا سے ہوگئی۔احمد صاحب نے راج کپور کے والد پرتھوی راج کو اپنی فلم"من کی جیت"میں ہیرو لیا تو اُن کی ہیروئن سولہ سالہ نینا تھی۔ احمد صاحب فلم پر اتھارٹی تھے۔ہالی ووڈ،بمبئی اور لاہور سبھی فلم نگریوں پر۔وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے ۔ایک دن دلیپ کمار صاحب کا ذکر کرتے ہوئے دور افق میں تکتے ہوئے کہیں یادوں میں کھو سے گئے۔کہنے لگے۔ابھی یوسف کی صرف ایک ہی فلم ریلیز ہوئی تھی۔"جوار بھاٹا"۔یہ فلم بمبئی ٹاکیز والوں نے بنائی تھی اور دلیپ صاحب کو ماہانہ تنخواہ پر ملازمت دیویکا رانی نے دی تھی۔وہ بمبئی ٹاکیز کی مالکہ تھی۔یوسف کو دیویکا سے کس نے ملایا،یہ کہانی پھر سہی۔جوار بھاٹا ریلیز ہو چکی تھی۔احمد صاحب شالیمار سٹوڈیو میں بیڈمنٹن کا کورٹ لگا کر کھیل رہے تھے۔ایک نوجوان ملنے کے لیے آ گیا۔احمد صاحب کواسے پہچاننے میں تھوڑی دیر لگی۔نوجوان کہنے لگا"میرا نام یوسف ہے"۔نوجوان کے لہجے میںمٹھاس تھی مگر اعتماد زیادہ نہ تھا۔میں مسلمان ہوں۔۔میری پہلی فلم جوار بھاٹا ریلیز ہو چکی ہے۔مسلمان فلم میکرز میں آپ کا بڑا نام ہے۔آپ سے راہنمائی کے لیے حاضر ہو ا ہوں۔احمد صاحب سوچ رہے تھے کہ کرسی ایک ہی ہے،اسے بٹھائوں یا خود بیٹھوں؟احمد صاحب خود بھی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے"میں نے تمہاری فلم دیکھی ہے"۔ایک بات یاد رکھنا۔۔کام کم کر لینا مگر کسی بری کہانی اور برے ڈائریکٹر کے ساتھ کام مت کرنا۔دلیپ صاحب نے اپنے ساٹھ سالہ فلمی کیریئر میں صرف60فلموں میں کام کیا۔بڑے ڈائریکٹرز کے ساتھ۔۔۔ہدایت کار محبوب،وی شانتا رام،کے آصف،بمل رائے،سبھاش گئی اور سہراب مودی۔۔سبھی نام نہیں لکھے جا سکتے۔ میرا خیال ہے احمد صاحب کے شالیمار سٹوڈیو میں ہی پونا انسٹیٹیوٹ آف فلم اینڈ ڈرامہ بنایا گیا۔1947ء کے بعد کن فلم میکرز،ڈائریکٹرز،کہانی لکھنے والوں نے،گیت کاروں نے اور میوزک کمپوزرز نے کب کب کیسے کیسے اتار چڑھائو دیکھے ،اس پر اُن کے پاس ایک لمبا تاریخی سلسلہ تھا۔کہانیاں ہی کہانیاں اور فلمی الف لیلیٰ۔فلمی لوگوں کے فلمی عشق۔۔شادیاں،طلاقیں اور ناکام محبتیں۔47ء کے بعد حکومت اور فلم والوں کے درمیان کیا چلتا رہا۔وہ بولتے رہتے اور میں ایک مؤدب سامع بن کر سنتا رہتا۔ایک دن سوال کیا۔۔کیا47ء کے بعد بھارت جانے کا موقع ملا؟۔۔ہاں ایک بار گیا تھا،1981ء میں۔رمیش سپی کی فلم" شعلے "بلاک بسٹر ثابت ہوئی تھی انڈیا میں۔سلیم اور جاوید نامی فلم رائیٹرز کی جوڑی کا توتی بول رہا تھا۔راج کپور نے کسی سلسلے میں کوئی فنکشن ترتیب دے رکھا تھا۔مجھے راج کپور کا دعوت نامہ موصول ہوا۔میں بھارت چلا گیا۔جب تقریب میں پہنچا تو راج کپور نے بانہیں پھیلا کر مجھے گلے سے لگا لیا۔پرانے لوگ بیشتر اس دنیا سے جا چکے تھے۔دلیپ(یوسف)صاحب نے مجھے دیکھا مگر مجھ سے آنکھ چُرا لی۔میں راج کپور سے باتوں میں مگن ہو گیا اور راج کپور مجھے پرانے لوگوں سے ملوانے لگا۔سارا رش سلیم اور جاوید کے ارد گرد تھا اور وہ دونوں کامیابی کے نشے میںباقی نشوں کو ملا کر چور چور تھے۔اُن کی باڈی لینگوئج چیخ چیخ کر کہہ رہے تھی"ہم سا ہو تو سامنے آئے"۔یاد رہے کہ سلیم خان۔۔سپر سٹار سلمان خان کے والد ہیں اور جاوید اختر۔۔لاجواب شاعر جانثار اختر کے بیٹے۔۔۔کیفی اعظمی کے داماد اور شبانہ اعظمی کے شوہر ہیں۔مگر ان کا اصل تعارف اُن کی فلمی کہانیاں۔۔مکالمے اور گیت ہیں۔دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے ،1981ء میں یش راج نے ساحر لدھیانوی کی ڈیتھ کے بعد جاوید صاحب کو مجبو رکیا فلم" سلسلہ" کے لیے گانے لکھنے پر تو تب یہ گانا لکھا گیا۔ راج کپور نے مجھ سے پوچھا(احمد صاحب سے)"یوسف سے ملاقات ہوئی"؟۔ میں نے نفی میں سر کو ہلایا۔(جاری ہے)