جس شہر میں میں پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی یعنی ’’ میانوالی ‘‘ وہاں پتنگ بازی کا کوئی خاص رواج نہیں تھا ۔ ہاں ، وہاں بھی بسنت کے دنوں میں پتنگ بازی ہوتی تھی، لیکن بہت ہی کم ۔ میرے خیال میں اس کی بڑی وجوہات دو تھیں ، ایک تو میانوالی میں خواتین کے پردے کا رواج تھا اس لیے مکانوں کی چھتوں پر کھڑے ہوکر کوئی کھیل کھیلنے کا سلسلہ ہی نہیں بنتا تھا دوسرا اسے کوئی مردانہ کھیل نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ وہاں کبڈی ، پڑکوڈی اور ہاکی کے کھیل بہت مقبول تھے ۔ پتنگ بازی صرف ہفتہ دس ہوتی تھی جب بسنت کا دن آتا تھا اور وہ بھی کھلے میدانوں میں اور بہت کم مکانوں کی چھتوں پر ۔ میرے ایک کلاس فیلو اور دوست ’’ قادر بہرام خیل ‘‘ کے باپ کی میانوالی شہر کے بازار میں سبزی کی دکان تھی۔ بسنت کے دنوں میں ’ قادر خان ‘ اسی دکان پر پتنگوں اور ڈور کا ایک چھوٹا سا سٹال لگا لیتا تھا اور پھر خوب رونق لگ جاتی تھی ۔ بسنت والے دن وہ کچھ پتنگیں اور ڈور کی چرخیاں لے کر آ جاتا تھا اور ہم دونوں گھر کے نزدیک کسی کھلے میدان میں پتنگیں اُڑانے کی ناکام کوشش کرتے تھے ۔میں نے لاہور آنے کے بعد دیکھا کہ پتنگ بازی تو اس شہر کا خاصا مقبول کھیل ہے خصوصاً اندرون شہر کے علاقوں میں۔در اصل پتنگ بازی پورے وسطی پنجاب میں بہت پسندیدہ ہے ، بچوں سے لے کر بزرگوں تک سب اس میں حصہ لیتے ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں۔ اب تو ان علاقوں کی خواتین بھی اس میں حصہ لیتی ہیں اور انجوائے کرتی ہیں۔ سنا ہے اب تو یہ کھیل ہمارے دارالحکومت اسلام آباد میں خاصا مقبول ہے اور اس شہر کے نا ں صرف نوجوان بلکہ اب تو وہاں کی خواتین بھی اس کھیل میں خوب اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ جہاں جہاں اور جن جن شہروں میں پتنگ بازی مقبول ہے وہاں اس کے لیے خصوصی طور پر کانٹے دار ڈوریں تیار کرنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ۔ پتنگ باز پھر ایک دوسرے سے ’’ پیچ ‘‘ لڑاتے ہیں اور مکانوں کی چھتوں پر ماہر پتنگ بازوں کی ٹیمیں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔اس طرح خوب ہلا گلا ہوتا ہے۔ ان مقابلوں میں خصوصی طور پر تیار شدہ ڈوریں استعمال ہوتی ہیں جو اتنی کانٹے دار اور چھری کی مانند تیز ہوتی ہیں کہ جہاں سے بھی گزرتی ہیں چیر پھاڑ کر کے رکھ دیتی ہیں ۔ کئی لوگوں کے گلے کٹ جاتے ہیں اور کچھ تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ابھی اسی ہفتے فیصل آباد شہر میں ایک نوجوان تیز دھار ڈور گلے پر پھر جانے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور باقاعدہ انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں۔پتنگ بازی کے بے شمار اور کئی اقسام کے جان لیوا نتائج ہوتے ہیں۔ شہر کی بڑی بڑی مصروف سڑکوں پر بچے اور نوجوان پتنگیں اور ڈوریں لوٹنے کے چکر میں اندھا دھند بھاگ رہے ہوتے ہیں جن کا نتیجہ ایسے حادثات ہوتے ہیں جو کئی معصوم اور بے گناہ جانیں لے جاتے ہیں۔ویسے تو پتنگ بازی پر پابندیاں لگتی رہتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد صحیح طور نہیں ہوتا ! اس کی عام وجہ عملدرآمد کرانے والے اداروں کی عدم دلچسپی ہوتی ہے۔کافی عرصہ پہلے تو لاہور شہر میں بسنت تہوار خوب منائے جاتے تھے جن میں نہ صرف خوبصورت اور رنگ برنگی پتنگوں کا بندوبست کیا جاتا تھا بلکہ انواع طریقے سے خصوصی ڈوریں تیار کرائی جاتی تھیں ۔ ان فنکشنز کے لیے محافل موسیقی کے اہتمام کیے جاتے تھے اورمختلف اقسام کے کھانوں کا بھی بندوبست کیا جاتا تھاجن سے مہمانان گرامی لطف اندوز ہوتے تھے۔مہمانوں میں شو بز کے لوگوں کو بلایا جاتا تھا بلکہ اپنے شہروں میں موجود غیر ملکی سفارت خانوں کے اہم عہدہ داران اور ملازمین کو دعوتیں دی جاتی تھیں۔ ان سب رونقوں کو انجوائے تو کیا جاتا تھا لیکن اس تہوار کے منفی نتائج بھی دل دہلا کر رکھ دیتے تھے جن میں لوگوں کی جانوں کا جانا سر فہرست تھا۔ اس ایک دن کے لیے شہروں میں موجود سرکاری ہسپتالوں کو الرٹ رکھا جاتا تھا اور عملہ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر موجود رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود جانوں کا نقصان ایک عام وطیرہ بن چکا تھا ۔ لوگوں کی کافی تعداد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ جاتی تھی اور ان میں بے شمار تو وہ لوگ ہوتے تھے جو معصوم ہوتے تھے جن کا کوئی رول یا کردار پتنگ بازی میں نہیں ہوتا تھا۔جس گھر کا بیٹا یا سربراہ بغیر کسی قصور یا خطا کے اپنی جان یا کوئی اعضاء گنوا بیٹھتا تھا اس کے دکھ کا اندازہ تو اس کے ماں باپ یا اس کے لواحقین ہی لگا سکتے تھے۔اپنے صوبہ پنجاب میں ’’ شریف خاندان ‘‘ کافی عرصہ سے حکومتی امور چلا رہا ہے ۔ جب اس خاندان کے افراد نے اس تہوار کے یہ منفی پہلو دیکھے اور محسوس کیے تو انھوں نے اس تہوار کے یوں منانے پر پابندیاں لگانی شروع کر دیں، جس کے بہتر نتائج سامنے آنے لگے اور اس شہر کی معصوم جانوں کا بغیر کسی خطا کے اپنوں کو چھوڑ کر جانا بھی تھم گیا ۔اب جب اپنے ملک میں وفاقی سطح پر اور صوبہ پنجاب میں اسی شریف خاندان کی حکومت ہے اور وہ اس تہوار کے نتائج اور اثرات کو بخوبی جانتے ہیں تو اس لیے صوبہ پنجاب کی سربراہ مریم نواز شریف نے اس تہوار سے منسلک پتنگ بازی پر مکمل پابندی لگا دی ہے اور صوبہ کے آئی جی پولیس اور اضلاع کے تمام ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ پولیس افسران کو یہ واضح ہدایات جاری کر دی ہیں کہ کسی کو بھی پتنگ بازی میں ملوث ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر کوئی اس مکروہ فعل میں ملوث ہوتے ہوئے پایا جائے تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔پتنگ بازی کے لیے ڈور تیار کرنے والوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور ان کے تمام سامان کو اپنے قبضہ میں لے کر ان کی فیکٹریاں seal کر دینی چاہیں۔آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ہماری وزیر اعلیٰ صاحبہ اس تمام ذمہ داری کو خود نبھا رہی ہیں ۔ فیصل آباد میں گردن پر ڈور پھرنے کی وجہ سے جس نوجوان کی موت واقع ہوئی ہے اس کی انکوائری پر بھی انھوں نے خوب نظر رکھی ہوئی ہے ۔ بلاشبہ پتنگ بازی کا شوق انتہائی برے نتائج پر منتج ہوا ہے لہذا اس پر پابندی ضروری تھی اور جاری رہنی چاہیے ۔ اس پابندی پر عملدر آمد سے معاشرے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جائیگا اور اس سے کئی دوسری برائیوں کا بھی خاتمہ ہو گا جو اس پتنگ بازی کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہو رہی تھیں ۔یہ بھی سننے میں آ رہا تھا کہ کچھ لوگ اس کی وجہ سے جوئے میں بھی ملوث ہو رہے تھے۔ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی حکمران کسی برائی کو روکنے کی کوشش کرے تو ہمیں پورے شدومد سے اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ اللہ ہماری وزیراعلیٰ صاحبہ اور اس کی ٹیم کو معاشرے میں پھیلتی برائیوں کو نا پید کرنے کی توفیق دے۔