میرے سامنے اس وقت ٹیبل پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 2خبریں پڑی ہیں، ایک یہ کہ فرمان اللہ نامی شخص جو فیصل مسجد کے سامنے قلفی کی ریڑھی لگا رہا تھا۔ان کے پانچ بچوں میں سے چار جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کے علاج کا خرچہ بھی اسی کمائی سے نکلتا ہے جو ماہانہ تقریبا 10، 15 ہزار روپے بنتے ہیں۔وفاقی دارالحکومت کے ادارے سی ڈی اے کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکاروں نے انھیں 11 جولائی کو گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ فیصل مسجد کے گرد و نواح میں’’بلا اجازت ریڑھی لگا کر تجاوزات کے مرتکب ہوئے۔‘‘صرف ایک دن بعد فرمان اللہ کو سی ڈی اے کے سینئر سپیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ملزم نے ’’اعتراف جرم‘‘ کیا اور درخواست کی کہ ان کو معاف کر دیا جائے۔فرمان اللہ کا کہنا تھا کہ وہ یہ’ ’غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔ میں غریب آدمی ہوں، مجھے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہے۔ میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘تاہم سینئر سپیشل مجسٹریٹ سردار محمد آصف نے سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے سیکشن 46 اے اور مارشل لا ریگولیشن نمبر 63 کے تحت پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تین ماہ قیدِ بامشقت کی سزا سناتے ہوئے حکم دیا کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں فرمان اللہ کو ایک ماہ کی اضافی قید کاٹنا ہو گی۔اب اس واقعہ کو غور سے پڑھیں کہ کس طرح ’ایک غریب آدمی کو صرف قلفی بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے ’تفتیش‘ کے دوران بیان لیا جاتا ہے جس میں وہ ’قبول‘ کرتا ہے کہ اس نے ریڑھی لگائی ہے۔ اور ان 24 گھنٹوں کے دوران نہ اسے وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی فیئر ٹرائل کی امید ملتی ہے۔حالانکہ دوست وکلاء کے مطابق قانوناً کسی بھی ممنوعہ جگہ پر ریڑھی لگانے کا زیادہ سے زیادہ جرمانہ 400 روپے ہوتا ہے۔ لیکن فرمان اللہ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگایا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام آباد کی تاریخ میں کبھی ’سی ڈی اے نے کسی گاڑی والے کو اسی جرم میں تین ماہ قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا نہیں کی لیکن اس کیس میں تو سب کچھ اُلٹ ہوگیا۔ اب ذرا دوسری خبر ملاحظہ فرمائیں کہ اگلے ماہ ختم ہونے والی مرکزی حکومت کے لیے ن لیگ کی جانب سے نگران سیٹ اپ میںوزیر اعظم کیلئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نامزد کر دیا گیا ہے۔ذرائع مسلم لیگ (ن) کے مطابق نگران وزیر اعظم کے معاملے پر مشاورت جاری ہے، اسحاق ڈار کے نام پر پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کی ملاقاتوں میں اسحاق ڈار کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا ہونے کا امکان ہے، اس حوالے سے دونوں جانب کی مشاورتی کمیٹیوں کی ملاقات جلد متوقع ہے۔ اب پاکستان کے قوانین کے مطابق اور روایات کو مدنظر رکھ کر کہا جاتا ہے کہ نگران سیٹ اپ غیر جانبدار ہونا چاہیے تو کیسے ممکن ہے کہ حکومتی پارٹی و اتحاد کا وزیر خزانہ نگران وزیر اعظم ہوگا، میرے خیال میں یہ اس ملک کے ساتھ ظلم ہوگا۔اور ویسے بھی انہوں نے ماسوائے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیلنے کے کونسا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اُن پر اس وقت بھی درجنوں مقدمات ہیں، جن میں وہ سابقہ دور میں اشتہاری قرار دیے گئے ،اُنہیں طلب کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئیں، سکاٹ لینڈ یارڈ سے رابطے کیے گئے، انٹرپول میں درخواستیں دی گئیں ، مگر وہ شان و شوکت سے سپیشل طیارے کے ذریعے پاکستان آئے۔ اور ایک بار پھر ملک کے ’’خزانے‘‘ کو سنبھال لیا۔ مجھ سمیت سبھی کو حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے سیاستدان و حکمران سبھی دودھ کے دھلے ہیں، ان پر کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، مگر وہ پھر بھی معتبر گنے جاتے ہیں، اُنہیں اقتدار بھی ملتا ہے اور اگلے مرضی کے الیکشن کروانے کے اختیارات بھی۔ لیکن اس ملک کا چور ایک ریڑھی والا نکلتا ہے۔ بہرکیف مجھے اسحاق ڈار یا کسی سیاستدان سے ذاتی پر خاش نہیں مگرقارئین یہ خود سوچیں، اپنے دل سے پوچھیں اور فیصلہ کریں کہ ان حکمرانوں کا درست اقدام ہوگا؟ اور پھر کیا وہ غیر جانبدار رہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو فیصلہ کرنے والی قوتوں کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ کچھ تو اس ملک کا خیال کر لیں، کوئی اخلاقیات ہی ہوتی ہیں، اس حوالے سے ہی کچھ سوچ لیں۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر میرے خیال میں کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو یا بیٹے کو نگران وزیر اعلیٰ لگا دیں، سندھ میں فریال تالپور کو ، بلوچستان میں عبدالقدوس بزنجو کے بھائی یا رشتہ دار کو اور پنجاب میں حمزہ شہباز کو لگا دیں۔ اور پھر ہو سکے تو ایسا قانون پاس کروا لیں یا ایسی ترامیم کروالیں کہ ان سیاسی خاندانوں میں سے ہی کوئی شخص ڈائریکٹ آرمی چیف یا چیف جسٹس لگ جائے۔ تو پھر اس ملک کے مسئلے ہی حل ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں اگر اسحاق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا تو بلاول، طارق بشیر چیمہ یا فاروق ستار کی سیاسی پارٹیوں اور جمہوریت کے لئے لمحہ فکریہ ہوگا۔دنیا ہمارے سفارتی نمائندوں سے یہ سوال ضرور کرے گی کہ پاکستان میں اس تمام تر پری پلان کارروائیوں کی آخر وجوہات کیا ہیں؟ پھر اُن کو لے کر کتنی شرمندگی ہوگی ؟ کیا اس حوالے سے کسی نے سوچا ہے۔ لہٰذاان پارٹی لیڈران کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اس کارخیر میں شریک ہوئے تو وہ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہوں گے، کیوں کہ فری اینڈفیئر الیکشن کا سب سے پہلا اصول غیر جانبدار نگران سیٹ اپ ہوتا ہے جس کے لیے ایماندار، باکرداراور اصول پسند سیاستدان، جج، صحافی یا بیوروکریٹ کو رکھا جا تا ہے۔ لیکن اگر اس ملک میں اس پورے criteriaپر صرف اسحاق ڈار اُترتے ہیں تو پھربسمہ اللہ۔اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر اربوں روپے کے فنڈز خرچنے کی کیا ضرورت ہے، حکومت ہی انہی کو دے دیں۔ پیسے بھی بچیں گے اور الیکشن کو لے کر لڑائیاں بھی نہیں ہوں گی۔ ریڑھی والے کی مثال میں نے اس لیے دی کہ اس ملک میں کمزور پس رہا ہے اور طاقتور مزید طاقتور ہو رہا ہے۔ آپ سرکاری اداروں میں بدعنوانی ‘ بازاروں میں ملاوٹ‘ منافع خوری‘ سود خوروں کا راج اور ہر نوع کی بدعنوانیاں جو دیکھ رہے ہیں‘ یہی تو وہ بگاڑ ہے جو قانون ‘ انصاف اور آئین کی مسخ شدہ روایت سے پیدا ہورہا ہے۔ اور پھر دہشت گردی‘ انتہا پسندی اورریاست کے خلاف مسلح گروہوں کی لشکر کشی کے اسباب کہاں تلاش کریں گے ؟یہ نتائج ہیں ان اعمال کے جو ہمارے طاقتور حکمرانوں اپنے ہی مفاد میں کرتے آئے ہیں۔ آج کل جو ہورہا ہے اور جو منصوبہ بندی کرتے آئے ہیں اس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ یہ صورتحال جاری رہی تومثال کے لیے کہیں دور تک دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ہم خود ہی اپنی مثال آپ بن جائیں گے! ٭٭٭٭٭٭