کل کیا ہو گا؟ آج کیا ہو رہا ہے؟ پہلے کیا کچھ ہو چکا ہے؟ ہماری زندگیاں سوالوں کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہیں اور کسی سوال کا کوئی حتمی‘ فیصلہ کن جواب نہیں ملتا۔ ہم سب ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو ٹٹولتے رہتے ہیں۔اس امید پر کہ شاید کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب مل جائے اور رات کو ہم پرسکون نیند سو سکیں۔ لیکن کہیں سے کوئی ایسا جواب آتا ہی نہیں۔ کیوں ہے ایسا اور کب تک ہم اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔اندھیرے کمرے میں کالی بلّی کی تلاش شاید ہی ہمارا مقدر ہے اور تقدیر کے اس کھیل میں نہ کالی بلی ملے گی اور نہ اندھیرے کمرے ہی سے ہم نکل سکیں گے۔کیا یہی ہمارا مقدمہ ہے؟ یہ کیسا کھیل ہے؟ اور کون ہے جو ہم سے کھیل رہا ہے؟پچھتر سال بیت گئے اور آج والے جتنے برس ہیں لگتا ہے ایسا ہے کہ ان برسوں میں بھی ہمیں نجات نہیں ملنے والی۔تو پھر سوال یہ ہے کہ ہمارا جرم کیا ہے؟ ایسا کون سا قصور ہم سے سرد ہو گیا ہے کہ اذیتیں‘ پریشانیاں اور ناکامیاں سائے کی طرح ہمارے ساتھ لگی ہیں اور وہ منزل آکر نہیں دے رہی ہے، جس میں سکون ہو‘ امن و اطمینان ہو‘سرخوشی اور سرشاری ہو۔یہ ہمارا ملک ہے اور یہ تیسری نسل ہے جو دکھوں اور اذیتوں کا تماشا دیکھ رہی ہے کوئی خان‘ کوئی میاں ایسا نہیں آیا جس نے ہمارے مقدر کو چمکایا ہو‘ ہمیں منزل تک پہنچایا ہو۔ کوئی کہتا ہے ہم بداعمال لوگ ہیں‘ ہمیں ہماری بداعمالیوں نے ان حالات تک پہنچایا ہے۔ہمیں اس وقت تک نجات نہیں ملے گی، جب تک ہم اپنی حالت کو بدل نہ لیں‘ اخلاقی طور پر اچھے نہ ہو جائیں۔ تو ہمیں اخلاقی طور پر کون اچھا کرے گا؟ کیا خود کو اچھا کرنا ہمارے اختیار میں ہے؟ اگر ہمارے اختیار میں ہوتا تو ہم اچھے نہ ہو جاتے۔ہم جو کچھ بھی ہیں‘ جیسے بھی ہیں‘ مجبوری کی حالت میں ہیں۔ ہمیں ہمارے حالات نے‘ ماحول نے‘ وراثت نے ایسا بنا دیا۔نیک و بد کا کسے نہیں پتہ۔ لیکن کیا آدمی کا علم اس کے عمل کا رہنما ہوتا ہے‘ ہرگز بھی نہیں۔سچ اچھا ہوتا ہے لیکن ہم جھوٹ بولتے ہیں‘ دیانت داری بڑی خوبی کی بات ہے لیکن ہم بددیانتی کرنے پر مجبور ہیں۔اسی طرح ساری اخلاقی صفات کو گنتے چلے جائیں۔آخری تجزیہ یہی بتائے گا کہ ہم سب کچھ جان کر بھی معلوم کر کے بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے ہم بن چکے ہیں اور ہم ویسے بنے ہیں جیسے ہمارے حالات نے ہمیں بنا دیا ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ ایک مذہبی مصلح کہے گا کہ دعا کرو۔خدا سے دعا کر ہمیں نیکی کی توفیق دیدے۔ہمیں اچھے اعمال والا بنا دے۔تو کیا خدا اس دعا کو قبول کرے گا؟ اس ملک میں مبلغین اور مصلحین کی کوئی کمی نہیں اور اب تو ہمیں بدلنے کے لئے ایک اور مخلوق میدان میں اتر آئی ہے جسے موٹیوشنل اسپیکر کہتے ہیں۔یہ جدید انداز میں معقول اور قابل قبول طریقے سے ہمیں خود کو بدلنے کے طریقے بتاتے ہیں اور سکھاتے ہیں کہ انسان سب کچھ کر سکتا ہے۔اپنے آپ کو بدل بھی سکتا ہے۔لیکن جہاں تک میرا مشاہد ہے انسان سب کچھ کر سکتا ہے لیکن اپنے آپ کو بدلنا اس کے اختیار میں نہیں۔خصوصاً وہ آدمی جو عمر کی چالیسویں دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے۔ وہ برا بھلا جیسا بھی بننا ہوتا ہے بن چکا ہوتا ہے‘ وہ چالیس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد لاکھ سر مار لے اپنے آپ کو اپنی عادتوں کو‘ اپنے مزاج اور عادات کو نہیں بدل سکتا۔الاّ یہ کہ وہ دنیا کو تیاگ دے کر جنگلوں کی طرف نکل جائے اور حقیقت اولٰی سے لو لگا کر کشٹ اٹھا کر برسوں کی ریاضت سے اپنی شخصیت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے اور پھر اسی کی راک سے ایک نیا جنم لے۔یہ سب کچھ بھی اسی وقت ممکن ہے جب حقیقت اولیٰ ایسا کرنا چاہے۔ تو پھر جب ہم اپنے آپ کو نہیں بدل سکتے‘ قوم ویسی کی ویسی ہی رہے گی وہ ہے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟ معاشرہ کیسے بدلے گا؟ انقلاب کیسے آئے گا۔جو رہنما تبدیلی کے لئے اٹھتے ہیں‘ ان کی تقریروں اور بھاشنوں پر لوگ کتنا سردھنستے ہیں لیکن ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ذرا اس پر بھی غور کر لیں۔اس خطے میں جہاں کروڑوں انسان بستے ہیں ۔انیسویں صدی سے بیسویں صدی تک اور اب اکیسویں صدی میں بھی کیسی کیسی شخصیات‘کیسی کیسی نابغۂ روزگار ہستیاں اٹھیں اور انہوں نے لوگوں کو بدلنے کے لئے سماج کو اپنی مرضی اور اپنے خیالات سے اس کے کایا پلٹ کی کیسی اور کتنی جدوجہد کی لیکن ہوا کیا؟ کچھ نہیں حالات کا تیز دھارا انہیں بھی اور ان کے اصلاحی و انقلابی خیالات کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔اب وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔لوگ باگ انہیں بہت کم جانتے ہیں اور نئی نسل تو انہیں پہچانتی بھی نہیں۔ تو آخر تبدیلی کا رمز کیا ہے؟ یہ قوموں کا عروج و زوال کیا ہے؟ یہ ملتوں کا ابھرنا اور ڈوبنا کیا ہے؟اگر ہم کہیں یہ سب کا سب حقیقت اولیٰ کا کھیل ہے۔وہ جس قوم کو ترقی سے ہمکنار کرنا چاہے وہ قوم بیدار ہو جاتی ہے اور جسے حالت زوال میں رکھنا چاہے وہ لاکھ کوشش اور جدوجہد کے باوجود بھی تخریب اور بگاڑ کی حالت سے دوچار رہتی ہے۔کوئی اصلاحی اور تبلیغی تحریک اس قوم کو پستی سے نکال کر بلندی تک نہیں پہنچا سکتی۔اگر اس فلسفے کو ہم مان لیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم اور اس میں رہنے بسنے والے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں اور کب حقیقت اولیٰ ان پہ مہربان ہو گا اور کب انہیں پستی سے نکال کر اوج ثریا پر پہنچائے گا ۔ ہاں یہی ہوتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کسی قوم میں بیداری کی لہر پیدا کر دیتا ہے اور اس میں ویسے ہی رہنما بھی پیدا ہو جاتے ہیں‘ قوم کو بدلنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔لیکن یہ سب کچھ حقیقت پسندانہ طریقے سے ہوتا ہے۔جادو کی چھڑی کسی کو بھی نہیں دی جاتی کہ وہ اسے گھما کر قم باذن اٹھا کہے اور مردہ قوم جی اٹھے۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔محنت ‘ کوشش‘ جدوجہد‘ مزاحمتیں‘ قربانیاں اور استقامت‘ شجاعت و عزیمت ‘ یہ سارے مرحلے اس قوم میں آ کر رہتے ہیں جسے تخریب و بگاڑ کی حالت سے نکالنا مقصود ہو۔دنیا میں آج جتنی قومیں ترقی یافتہ ہیں‘ وہ سب ان ہی مرحلوں سے گزری ہیں۔ان کی تاریخ پڑھ لیجیے‘ تصدیق ہو جائے گی۔ آج ہمارا ملک ایک بدترین انتشار سے گزر رہا ہے۔لیکن اس انتشار کے خلاف ایک مزاحمت بھی قوم میں پائی جاتی ہے۔بیداری کی ایک لہر بھی اٹھ چکی ہے اور مزاحمتیں‘ رکاوٹیں اور مخالفتیں بھی ساتھ ساتھ ہیں اور یہ نشانی ہیں کہ خیرو شر کی کشمکش عروج پر پہنچ رہی ہے۔یہ ظاہر خیر کو شکست و ریخت کا سامنا ہے لیکن پائے استقامت مضبوط رہا اور خیر کی قوتیں متحد رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ شر کو شکست نہ ہو۔شر کے پاس طاقت ہے‘ وسائل ہیں‘ بہ ظاہر وہ چھاپا ہوا ہے لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں اگر خیر کی قوتوں کی اخلاقی بنیاد مضبوط ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کامیاب نہ ہو۔ تو اے میرے پیارے ہم وطنو؟ مایوس نہ ہو‘ اپنے دلوں میں امید کا دیا جلائے رکھو اور اپنے حصّے کی شمع جلانا نہ بھولو۔ کامیابی تمہاری ہی ہو گی اگر تم حق پر ہو گے!