مرے کو مارے شاہ مدار اردو زبان کا محاورہ  س وقت بولا جاتا ہے جب پے در پے مشکلات اور مصیبتیں وارد ہوتی رہیں۔۔ایسا ہی کچھ وطن عزیز میں رہنے والی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے جو مسلسل مہنگائی کے الاو میں جھونکے جا رہے ہیں لیکن ان کی چیخ و پکار اور دہائیاں کوئی سننے کو تیار نہیں۔ حکومتی زعما ایک طرف کشکول اٹھائے دنیا بھر میں قومی غیرت و حمیت کا جنازہ لئے پھرتے رہے دوسری طرف وطن میں وہی ہٹو ، بچو کی صدائوں میں چھتیس آگے، بتیس پیچھے گاڑیوں کے قافلے، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کے جھرمٹ، چہروں پر رعونت لئے نام و نمود کی نمائش کرتیرہے غریب بلبلاتا رہا لیکن غریب کی کسی نے نہ سنی۔پھر نگران حکومت کا شور و غوغا بلند ہوا۔لو جی وہ بھی آگئے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑکی حکومت نے آتے ہی غریب عوام کے کڑاکے نکال دیے۔غریب اس خوش فہمی  میں رہے کہ اب دکھوں کا مداوا ہو گا، منظر کشی بھی کچھ ایسی ہی کی جا رہی تھی لیکن " بقول شخصے جن پہ تکیہ تھا وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔پانچ ،دس بھی نہیں ساڑھے سترہ روپے فی لٹر پیٹرول پر بڑھا دیے۔ پیٹرول بڑھاہر چیز کے نرخ آسمان پر چلے گئے۔چینی سے لے کر سبزیاں ، دالیں ، آٹا اور دیگر روز مرہ کے استعمال کی چیزیں غریب کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ یوٹیلیٹی اسٹوروں پر جہاں گھنٹوں گھنٹوں قطاروںمیں لگنے کے باوجود مطلوبہ سامان  نہیں ملا کرتا تھا سرکار نے وہاں بھی سبسڈی ختم کر دی غریب کی وہ آس بھی جاتی رہی۔ویسے ان یوٹیلیٹی اسٹوروں پر ماضی اور حال قریب میں جو گل کھلائے جاتے رہے ہیں کبھی ان کی بھی انکوائریز ہو جائیں تو ایسے ایسے راز منکشف ہوں گے کہ لوگ بڑے بڑے اسکینڈلز بھول جائیں گے۔ ویسے حیرت ہے کہ حکومت نے اپنی شاہ خرچیوںکو کم نہیں کیا غریب کو ملنے والی نام نہاد سبسڈی ختم کر دی۔حکومت کے اس ظالمانہ فیصلے کے بعد عوام نے ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ نگران کابینہ کی تشکیل تکمیل کو پہنچی۔اب نگران کب تلک نگہبانی کریں گے اس کے بارے کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔"ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ" والا معاملہ در پیش رہے گا۔تقاریر بھی ہوں گی، بیانات بھی داغے جائیں گے ،آئین و قانون کی پاسداری کی باتیں بھی ہوں گی لیکن مہنگائی کسی بھی طرح کم نہیں ہو گی۔بلکہ" پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا" کہ مصداق لفظوں کی شعبدہ بازیوں کا بازار گرم رہے گا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے تیرہ مہینے میں ستتر بل پاس کروائے جس میں سے ایک بل بھی عوامی مسائل سے متعلق نہیں تھا بلکہ تما م بل ایسے تھے جس سے حکومت میں شامل جماعتوں کے ارکان اور حلیفوں کو بلا واسطہ اور بالواسطہ فائدہ ہوا جس میں سے بیشتر بل تو ایسے ہیں جن سے مستقبل کی پیش بندیاں اور ماضی میں کردہ بے ضابطگیوں کو قانونی چھتری فراہم کرنا تھی۔یہ تھی کارکردگی پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کی جس نے مہنگائی کے الاومیں دھکیلی گئی ،عوام سے ٹیکس لے کر اپنے اللے تللوں کو نہ صرف پورا کیا بلکہ انہیں دوام بھی بخشا۔اب آئیں آپ کو رواں مہینہ اگست سے آنے والے بجلی کے بلوں میں کون کون سا بھتہ شامل کیا گیا ہے۔بجلی کس طرح گرائی جائے گی اس کا احوال بھی سن لیں۔ بجلی کے بل میں تیرہ قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں ان میں سے بیشتر وہ ٹیکسز  ہیں جس کی" الف " اور ،"ب"سے ملک میں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد نا بلد ہے۔بجلی کا صارف تیرہ  قسم کے ٹیکسز ادا کرتا ہے, پہلے نمبر پر بجلی کی قیمت پر جنرل سیلز ٹیکس دوسرے نمبر پر  فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ پر سیلز ٹیکس ، نمبر تین پر فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی، نمبر چار فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ پر ویری ایشن ٹیکس،نمبر پانچ بجلی کے یونٹس کی قیمت پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی، نمبر چھ ٹیلی وڑن فیس نمبر سات کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجز،نمبر آٹھ فنانس کاسٹ چارجز،نمبر نوایکسٹرا چارجز،نمبر دس فر تھر ٹیکس چارجز، نمبر گیارہ ودہولڈنگ ٹیکس، نمبر بارہ میٹر رینٹ اور نمبر تیرہ انکم ٹیکس۔یہ وہ ٹیکسز پیں جو ہر بجلی کا صارف ادا کرتا ہے جبکہ اشرافیہ کو ہزار سے لے کر تین ہزار یونٹس مفت بجلی دی جارہی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اب لفظوں کی جادو گری کے بعد پیش خدمت ہے اعداد و شمار کی گھمن گھیریاں۔سو یونٹس پر بجلی کا بل آئے گا دوہزارچار سو بہتر اور جیسے ہی یہ یونٹس ایک سو دو ہوں گے صارف کو دو یونٹ کے ایک ہزار انتالیس روپے ادا کرنا ہوں گے،یعنی صرف دو یونٹ کے ایک ہزار انتالیس روپے ہوں گے، دوسو یونٹس استعمال کرنیوالے صارفین کاکل بل چھ ہزارآٹھ سو پچاس ہو گا تاہم اگر یہ بل دو سودو یونٹ کا ہو تو یہ ہی بل آٹھ ہزاردو سو تئیس یعنی صارف کو صرف دو یونٹ کے ایک ہزارویں سو اڑتیس روپے دینا ہوں گے۔تین سو یونٹ بجلی کا بل بارہ ہزار دو سو تیرہ ہو گا جبکہ تین سو دو یونٹ کا بل چودہ ہزار پانچ سو دس یعنی دو اضافی یونٹ پر دو ہزار دو سو ستانوے روپے ادا کرنے ہوں گے۔چارو یونٹ کے صارفین کوانیس ہزار دو سو اٹھارہ روپے ادا کرنا ہوں گے تاہم اگر یونٹ چار سو دو ہیں تو یہ ہی بل صرف دو اضافی یونٹ کے ساتھ اکیس ہزار دو سو پچاس ہو جائے گا یعنی دو یونٹ دوہزار بتیس کے پڑیں گے اسی طرح پانچ سو یونٹ کا بل چھبیس ہزار چار سو تیس ہوگا لیکن پانچ سو دو یونٹ کا بل ستائیس ہزار چھ سو پانچ کا ہو جائے گا یعنی دو اضافی یونٹ ایک ہزار ایک سو پچھتر میں پڑیں گے چھ سو یونٹ کا بل بتیس ہزار نو سو چورانوے اور چھ سو دو یونٹ کا بل چونتیس ہزار ایک سو تینتیس یعنی دو یونٹ کے صارف کوایک ہزار ایک سو انتالیس اضافی دینا ہوں گے۔ اسی طرح سات سو یونٹ کل بل انتالیس ہزار چھ سو نوے جبکہ سات سو دو یونٹ کا بل چوالیس ہزار نو سو چوراسی یعنی دو یونٹ کے پانچ ہزار دو سو چورانوے دینا ہو گے۔اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔