طالبان نے اپنے زور بازو‘حکمت اور سب سے بڑھ کر خدائے ذوالجلال کی نصرت سے امریکہ اور اس کے حواریوں کو شکست فاش دی ہے۔بیشتر لوگوں کے اندازوں کے برعکس طالبان نے عبوری حکومت کا بھی اعلان کر دیا اور پنج شیر کی بغاوت کو بھی بحسن و خوبی منقطقی انجام تک پہنچا دیا ہے۔ چند امریکہ نواز لوگ پنج شیر کو ایک بہت بڑے چیلنج کے طور پر دیکھ رہے تھے ،اب طالبان کے لیے نئے چیلنجز تلاش کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں کو اسلام پسند طالبان کی فتح ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ یہ بے سروسامان مجاہدین امریکہ جیسی طاقت پر غلبہ پا سکتے ہیں۔ طالبان اپنی کمزور معیشت کے بارے میں اتنے فکر مند اور ناامید نظر نہیں آتے جتنے یہ لوگ ہیں۔ طالبان سے حسد کرنے والے یہ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ طالبان کے مختلف گروہوں میں بہت جلد پھوٹ پڑ جائے گی اور افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ انہیں یہ امید بھی ہے کہ امریکہ کی تیار کردہ افغان فوج دوبارہ سر اٹھائے گی اور یہ امریکہ کی تربیت یافتہ فوج وار لارڈز کے ساتھ مل کر افغانستان کی نئی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرے گی۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ فوج کتنی تربیت یافتہ ہے اور اس کے حوصلے کتنے بلند ہیں۔ طالبان نے سابق فوج کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کیا ہے اور انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ اس فوج کا پیشتر حصہ پہلے ہی نئی حکومت کے ساتھ مل چکا ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ افغانستان میں جو طبقہ بھی طالبان کے خلاف سر اٹھائے گا۔ افغانستان کے عوام اسے امریکہ کا ہمدرد اور ساتھی تصور کریں گے۔ افغان عوام اپنی آزادی کا سودا کسی قیمت پر بھی نہیں کرتے ،اس لیے یہ توقع رکھنا کہ افغان عوام کسی امریکی پٹھو کے لیے طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بعید از قیاس ہے‘ اگرچہ معیشت ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن افغانستان کے عوام روکھی سوکھی کھا کر بھی اپنی آزادی کا تحفظ کریں گے۔ افغان عوام کا معیشت کا تصور اس خطے کے دوسرے ممالک سے کافی مختلف ہے۔ افغانستان کی سابقہ حکومت جو امریکہ کی کٹھ پتلی تھی۔ افغان عوام میں بے حد غیر مقبول تھی حالانکہ ان کے دور میں افغانستان میں ڈالروں کی بھرمار تھی۔ اس حکومت کے لیڈروں کے گھروں سے جس طرح کروڑوں ڈالر اور سونا برآمد ہوا ہے۔ افغان عوام کے دلوں میں ان کی رہی سہی عزت بھی جاتی رہی ہے۔ ان لیڈروں کا اب افغانستان میں سیاست کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کھانے والے مغربی ممالک اب افغانستان کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا سبق دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ممالک اپنی آزادی کے دو سو سال بعد تک عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں دے سکے تھے وہ افغانستان میں عورتوں کے لیے حکومت میں حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ممالک خود تو گورے اور کالے کو برابر کا حق نہیں دے سکے‘ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ہر طبقے کو حکومت میں برابر کا حصہ ملے اور فوراً ملے۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ فاتح قوم کو شکست خوردہ فریق Dictation دے۔ امریکی اور برطانوی ذرائع ابلاغ کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوری پیدا کی جائے اور مخاصمت کے بیج بوئے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کا بی بی سی کو انٹرویو اس رویے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ بی بی سی کے صحافی کی شدید خواہش تھی کہ عمران خان طالبان کی تعلیم نسواں کی پالیسی کو کسی نہ کسی طرح رد کریں اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنی آواز ملائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے لیڈر بھی اب ان چالوں کو سمجھنے لگے ہیں اور آسانی سے ان کے چنگل میں نہیں آتے۔ پاکستان کو کسی صورت بھی افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے جائیں اور کوشش کی جائے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو قائل کیا جائے وہ جلد از جلد ایک گروپ کی حیثیت سے افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کریں اور افغانستان کو ایک پرامن اور خوشحال ملک کی حیثیت سے کھڑا ہونے میں ہر ممکن مدد فراہم کریں۔افغانستان کے مستحکم اور خوشحال ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ اس کے ہمسایہ ممالک کو ہوگا۔ روس اور چین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس موقع کا فائدہ اٹھائیں اور افغانستان کی اتنی مدد کریں کہ امریکہ اور یورپی ممالک کے لیے دوبارہ اس خطے میں آنے کے راستے مسدود ہو جائیں۔ روس اور چین زیادہ تر خاموش ڈپلومیسی میں یقین رکھتے ہیں لیکن پاکستان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ یہ دونوں بڑی طاقتیں افغانستان میں سرمایہ کاری کریں تاکہ سی پیک کا منصوبہ آسانی سے وسط ایشیائی ریاستوں تک جائے اور امریکہ کا اثر و نفوذ اس خطے میں کم سے کم ہو جائے۔ افواج پاکستان نے کمال جرأت اور کثیر سرمائے سے افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے۔ اس صائب اور بروقت فیصلے کے ثمرات اب نظر آنے لگے ہیں۔ ہمیں ہر قیمت پر اپنی سرزمین کا دفاع کرنا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو حکمت اور جرأت سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کے افغان طالبان کے ساتھ گہرے روابط ہیں لیکن ہمیں اس سے گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جتنی ضرورت ہمیں طالبان حکومت کی ہے‘ اس سے کہیں زیادہ افغان طالبان کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان نے پہلے ہی برملا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے اور اس میں پاکستان کا ذکر خصوصی طور پر کیا ہے۔ اب ہمیں خود اپنے ملک میں ٹی ٹی پی کو موثر طور پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے ڈپلومیسی کے میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہیں صدر پاکستان اور وزیر خارجہ کا ٹی ٹی پی کے لیے معافی کا مشروط اعلان ایک بے وقت اقدام تھا۔ اس اعلان سے پہلے بہت تیاری اور زمین ہموار کرنے کی ضرورت تھی۔ ٹی ٹی پی کے جواب نے بھی ثابت کردیا ہے کہ معافی کا یہ اعلان بلاجواز اور بے وقت کی راگنی تھا۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان حکومت اور پاکستان کے لیے بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن جو لوگ پاکستان اور طالبان ڈرانے کی کوشش میں مصروف ہیں ان کی مثال اس پہلوان کی سی ہے جو اپنے حدمقابل کو چت کرنے کے بعد اس کے سینے پر سوار تھا لیکن گریہ زاری میں مصروف تھا کہ اگر اس کا مدمقابل اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا کیا بنے گا۔ خوف کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ ہمیں بلاخوف و خطر طالبان کی مدد کرنی ہے اور اس بڑی فتح کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔