پاکستان کی موجودہ سیاسی ،سماجی اور معاشی صورتحال انتہائی گھمبیر اور پریشان کن ہے۔ معاشی ترقی کے راستوں پر موجود رکاو ٹوں نے سماجی بہتری کی جانب بڑھتے قدم روک دیئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ریاست بھٹک کراپنی منزل کھو چکی ہے۔ جمہوریت ،وفاقیت، مساوات، مذہبی رواداری اور عدلیہ کی آزادی کے جو مقاصد دستور ساز اسمبلی نے 1949 ء متعین کئے تھے، وہ یکسر فراموش کردیئے گئے ہیں۔ ایسا کب ہوا ،کیسے ہوا اور اس کا کون ذمہ دار ہے۔ان سوالات کے جوابات ہمیشہ مبہم اور نامکمل رہے ہیں۔ ریاستی پالیسی بھی یہی رہی ہے کہ سچ کو دھندلا رکھا جائے ۔ واقعات کے پس پردہ محرکات پر پردہ ڈالنے سے نہ تو ان کے اثرات کم کئے جاسکتے ہیں اور نہ آئندہ کے لئے ان کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ حقائق کا سامنا کیا جائے ۔ ایک وفاقی جمہوری ریاست کے شہریوں کو، جیسا کہ دستور میں طے ہے ، ریاست کے معاملات سے الگ رکھنا کسی بھی لحاظ سے ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔سیاسی نظام جسے دستور کے مطابق پارلیمانی جمہوریت پر استوار ہونا تھا اسے ابتدا میں ہی غلط راستے پر ڈال دیا گیا ۔جس سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اپنی روایتی ڈگر سے ہٹ گئی ۔ پاکستان کی سیاست کا یہی وہ پہلا موڑ تھا جہاں سے جمہوریت اپنی راہ سے بھٹک گئی۔ غلام محمد کی گورنر جنرل شپ میں یہ صورتحال اپنی انتہائی شکل میں پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوئی۔ ہر دو مناصب میں اختیارات کی کشمکش نے پارلیمانی جمہوریت کی روایات اور اقدار کو بر طرح پامال کیا ۔ غلام محمد نے گورنر جنرل ہو نے کی حیثیت میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود جس طرح بر طرف کیا اور محمد علی بوگرہ کو ، جو اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے ، وزیر اعظم بنایا۔ اس پر پارلیمنٹ اور ان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ پاکستان میں جمہوریت کے بھٹکنے کا ایک اور موڑ ثابت ہو ا۔ یہی وہ دور تھا جب بیوروکریسی اور فوج پوری طرح سیاسی نظام کو پوری طرح ا پنی گرفت میں لے چکی تھی۔پاکستان میں جمہوریت کے بھٹکنے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا ۔ بیوروکریسی اور فوج کے ساتھ اب اس میں عدلیہ بھی شامل ہو گئی ۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کرنے کے بعد گورنر جنرل نے 1954 ء میں دستور ساز اسمبلی کو ہی برطرف کردیا ۔اس برطرفی کو اسپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین نے سندھ چیف کورٹ میں اس ایکشن کے خلاف اپیل دائر کی جس پر سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے اسمبلی برخواست کرنے کے فیصلے کو غیر ضروری قرار دیا۔سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈریشن نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی ۔ فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے فیصلے کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے درست قرار دے دیاا وراس بات کی بھی وضاحت کی کہ سندھ چیف کورٹ اس مقدمے کو سننے کی کی مجاز نہیں تھی۔ چیف جسٹس منیرکا یہ فیصلہ پاکستان میں جمہوریت کے راستے میں پہلے سے موجود رکاوٹوں میں ایک بڑا اضافہ ثابت ہوا۔ پاکستان کی سیاست میں ان کا یہ فیصلہ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کے لئے ایک محفوظ اور آسان راستہ بن گیا ۔ دستور جو کسی بھی مملکت کے سیاسی ،انتظامی اور عدالتی اداروںکے لئے راہ عمل تجویز کرتا ہے پاکستان میں اس کی ترتیب و تشکیل غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوئی ۔بھارت جس نے پا کستان کے ساتھ ہی ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا۔ آزادی کے محض تین سال بعد ہی یعنی 1950 ء میں دستور سازی کا عمل مکمل کر تے ہوئے پارلیمانی جمہوریت کا سفر شروع کر چکا تھا جب کہ پاکستان میں دستور ساز ی کا عمل نو سال کی تاخیر کے ساتھ بڑے جبر و کراہ کے ساتھ 1956 ء میں مکمل ہوا ۔ دستور سازی میں تاخیر سے پاکستان میں جمہوریت کی راہیں مذید دھندلی ہوتی رہیں۔ اس دوران دستور ساز اسمبلی کو جس بڑٖی رکاوٹ کا سامنا رہا وہ مشرقی پاکستان کی آبادی کا اکثریتی ہونا تھا ۔ جمہوری اصولوں کے مطابق اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم میں مشرقی پاکستان کی نمائندگی زیادہ ہونا تھی جو پاکستان کے مغربی حصے پر مشتمل صوبوں بالخصوص پنجاب کو قبول نہیں تھا ۔ پاکستان پر اس وقت کی حکمراں طاقتیں بھی مشرقی پاکستان کی اکثریتی نمائندگی سے خوفزدہ تھیں چنانچہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو غیر موئثر رکھنے کے لئے ون یونٹ اسکیم کا نفاذ کیا گیا ۔ اس اسکیم کے تحت مغربی حصے میں شامل صوبوں پنجاب، سندھ ، موجودہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو ایک صوبہ مغربی پاکستان بنایا گیا ۔ اسمبلی میں نمائندگی کے لئے پیریٹی ( PARITY ) یعنی دونوں صوبوں کی مساوی نمائندگی کا غیر جمہوری اصول اختیار کیا گیا ۔پیریٹی کے اصول کا اطلاق نے جمہوریت اور وفا قیت دونوں کو شدید زک پہنچائی ۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں سیاسی نظام میں غیر سیاسی قوتوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو خاموشی سے نہ صرف دیکھتی رہیں بلکہ پارلیمانی جمہوریت کے نام پر ان کے غیر جمہوری اقدامات میںشریک بھی رہیں۔ابتدائی گیارہ سالوں میں پاکستان میں جمہوریت کا سفر جس طرح اپنی معروف راہوں سے بار بار بھٹکا یا جاتا رہا اس کے اثرات چھئتر سالوں کے بعد بھی موجود ہیں ۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ جمہوریت کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کو سیاسی طریقے سے روکا نہیں گیا ۔جمہوریت کے لئے آج بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ریاست کے مقاصد دھندلا دئے گئے ہیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے پاکستان میں جمہوری ماحول کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ آج بھی سیاسی ادارے کمزور ہیں اور جمہوریت کا پودا ناتواں ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل اور اس کی پختگی کے بغیر پاکستان کے وفاق کی سلامتی اور اس کی خوشحالی ممکن نہیں۔یہ بات سیاست دانوں کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ تاریخ کے کٹہرے میں انہیں ہی کھڑا ہونا ہے ۔