صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لاہور چیمبر آف کامرس کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز دی ہے۔صدر مملکت کی تجویز کا پس منظر وہ رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے۔پچیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا تعلیم سے محروم رہنا مستقبل میں کئی چیلنجز کی بنیاد ہو سکتا ہے۔اتنے ناخواندہ افراد کو روزگار فراہم کرنا ہی چیلنج نہیں ہو گا بلکہ آبادی کے بڑے حصے کا غیر پیداواری رہ جانا پورے ملک کی پسماندگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو تمام بچوں، خاص طور پر سب سے زیادہ پسماندہ طبقات کے بچوں کی سکول میں حاضری، قیام اور تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ اگرچہ سکولوں میں داخلہ اور تعلیمی عمل برقرار رکھنے کی شرح میں بہتری آ رہی ہے تاہم پاکستان میں تعلیمی اشاریوں کو بہتر بنانے میں پیش رفت سست رہی ہے۔ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسری سب سے زیادہ تعداد ہے جس کے اندازے کے مطابق 5سے16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے سکول نہیں جاتے، جو اس عمر کے گروپ کی کل آبادی کا 44 فیصد ہیں۔ 5سے9 سال کی عمر کے گروپ میں 5 ملین بچے سکولوں میں داخل نہیں ہیں ۔ پرائمری سکول جانے کی عمر کے بعد ایسے بچوں کی تعداد دوگنی ہوجاتی ہے۔ 10سے14 سال کی عمر کے 11.4 ملین نوجوان رسمی تعلیم بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ جنس، سماجی و اقتصادی حیثیت اور جغرافیہ کی بنیاد پر تفاوت نمایاں ہیں۔ سندھ میں 52 فیصد غریب ترین بچے (58 فیصد لڑکیاں) سکول سے باہر ہیں، بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔پرائمری سطح پر تقریباً 10.7 ملین لڑکے اور 8.6 ملین لڑکیاں داخل ہیں اور نچلی ثانوی سطح پر 3.6 ملین لڑکے اور 2.8 ملین لڑکیاں رہ جاتی ہیں۔ تمام تعلیمی درجوں پر خدمات کی فراہمی میں فرق تعلیم تک رسائی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ معاشی عوامل سے متعلق مسائل کے ساتھ مل کر سماجی رکاوٹیں پسماندہ طبقات، خاص طور پر نوعمر لڑکیوں کی تعلیم میں حائل ہوتی ہیں۔ ایک قابل اعتماد ڈیٹا سسٹم ترتیب دینا اور سکول میں بچوں کے داخلے کی نگرانی کے اقدامات آئی ٹی گورننس کے دور میں بھی ایک چیلنج ہے۔ ناکافی فنڈز، تعلیمی پالیسی کے وعدوں کا محدود و غیر منصفانہ زیادہ پسماندہ بچوں تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ تعلیمی بجٹ کل جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، یہ ابھی تک 4 فیصد ہدف سے بہت کم ہے۔ بچوں کو سکول داخل کرانے کی مہم اور سرکار کی پالیسیوں پر تنقیدی مباحث کئی سال سے جاری ہیں،سکول نہ جانے والے بچوں کیتعداد میں اضافے نے ملک کے پالیسی سازوں کی کارکردگی کو بے نقاب کر دیا ہے ۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تعداد اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ پہلے پاکستان نائیجیریا سے تھوڑا اوپر تھا لیکن اب سب سے نیچے ہے۔ ۔سرکاری طور پر نئے اعداد و شمار پر اگرچہ اختلاف ہے، کہا جا رہا ہے کہ دو کروڑ باسٹھ لاکھ کی بجائے دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بھچے سکول سے باہر ہیں۔سکول سے باہر بچوں کے متعلق تازہ ترین معلومات وفاقی نگراں وزیر تعلیم مدد علی سندھی کی جانب سے وزیر تعلیم پنجاب کو لکھے گئے خط میں بتائی گئی ہیں۔ماضی میں بچوں کو سکول میں داخل کرانے کے لیے کئی مہم چلائی گئیں لیکن زمینی طور پر ان کے نتائج غیر معمولی طور پر منفی رہے۔پاکستان میں بچوں کے سکول سے باہر ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ چند اہم وجوہات یہ ہیں: بچوں کے سکول نہ جانے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ غربت میں رہنے والے خاندان سکول کی فیس، یونیفارم، کتابیں اور دیگر متعلقہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ بہت سے بچے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کرنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے باقاعدگی سے سکول جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں سکول جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ پاکستان کے بہت سے سکولوں میں بنیادی ڈھانچے جیسے کلاس رومز، ڈیسک، کرسیاں اور صفائی کی سہولیات کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بچوں کے لیے جانا اور سیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔تعلیم کا کم معیار: جب بچے سکول جاتے ہیں تو وہاں تعلیم کا معیار اکثر ناقص ہوتا ہے، تدریسی اور سیکھنے کا مواد کم ہوتا ہے ۔ تنازعات یا قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کو اکثر تعلیم تک محدود رسائی حاصل ہوتی ہے، کیونکہ سکول تباہ یا بند ہو جاتے ہیں اور خاندان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔دہشت گردی، ذاتی دشمنی اور قدرتی آفات کا مسلسل آنا اس خرابی کی وجہ بنا ہے۔ فاصلہ: دیہی علاقوں میںسکول اکثر دیہات سے دور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کے لیے باقاعدگی سے سکول جانا مشکل ہوتا ہے۔ملک بھر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور رہنما رنگ رنگ کے دعوے کر رہی ہیں۔حیرت اس امر پر ہے کہ ملک کی پائیدار ترقی و استحکام کی بنیاد کا درجہ رکھنے والے امور کو سیاسی جماعتیں مسلسل نظر انداز کر رہی ہیں۔کسی جماعت نے سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر پالیسی بنائی نہ اپنے پروگرام کا اعلان کیا۔ عوامی مسائل سے لاتعلقی پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے۔