قدرت نے وحید احمد کے اندر تخلیقی اظہار کی ایک عجیب بھٹی سلگا رکھی ہے، جس پر دھرے خیال کے کڑاہوں پر ہر وقت خالص دودھ پکتا رہتا ہے، اور ان کے اندر کا فنکار اس کڑھتے ہوئے دودھ سے بالائی کی تہیںاتارتا جاتا ہے اور پھر اس خالص بالائی سے اظہار کے نت نئے ذائقے بناتے۔ منفرد ڈکشن کی نظم نگاری ان کی پہچان کا اولین حوالہ ہے، ایک دبنگ نظم نگار کی پہچان بنالینے کے بعد وہ اپنے اندر کے اظہار کے لیے نثر نگاری کی طرف آئے اور زینو جیسا شاہکار ناول پانچ برس کے عرصے میں تخلیق کیا جس کی ہر سطر لکھاری کے وسیع المطالعہ ہونے کی دلیل ہے۔ دسمبر کے آخری اور جنوری کے آغاز کے دن میں نے وحید احمد کی کتابیں پڑھتے اور بطور لکھاری ان کی تخلیقی قوت پر حیران ہوتے گزارے۔ سفر درپیش تھا تو زینو سامان میں رکھ لیا اور دوران سفر تیزی سے بدلتے مناظر کے بیچ میں زینو کی ابتدائی سطریں پڑھنے لگی۔ اولین سطروں میں اظہارِ کی جادو گری نے ہی سفر کے ہنگام میں میری توجہ کا دامن تھام لیا ،"زیتون کے درخت کے پاس آکر زینو رکا ایک چھوٹا تیر ترکش سے نکالا، کمان میں بھرا زیتون کے درخت میں ریشمی سرسراہٹ ہوئی سورج موسم بہار کی سہ پہر میں تھا اور اس کے پیلے تھال کو بادل کے مہین پارچے نے نقرئی کر دیا تھا"وحید احمد کی جادوئی نثر اور زینو کے منفرد تھیم نے مل کر دوران سفر ایک سحر انگیز فضا بنانا شروع کی۔ پھر 10 دن کا وقفہ پڑا۔جس میں زندگی کی مصروفیت ایسی تھی کہ اس ناول کو پڑھنے کے لیے خالص توجہ مفقود رہی، دوسری کتابیں پڑھتی رہی مگر دانستہ زینو کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وحید احمد کی جادو ئی نثر کو پڑھنے کا حق یہ ہے کہ اسے توجہ کا خیمہ لگا کر پڑھا جائے۔ اس پہ مستزاد ناول کا منفرد تھیم ،جو پڑھنے والے سے پوری توجہ مانگتا ہے۔یہ ناول آپ کو گرد و پیش کی فضا سے کاٹ کر ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔جہاں سب سے پہلے آپ قدیم یونان میں وارد ہوتے ہیں اور اس کی گلیوں میں زینو کے ساتھ پھرتے ہوئے ارسطو اور سکندر سے ملتے ہیں۔ ٹیکسلا کی خوابیدہ اور پرسرار فضا میں آپ کوتلہ چانکیہ سے ملتے ہیں، جو اپنی کتاب ارتھ شاستر لکھنے کی تیاری کررہا ہے۔ زینو کے ساتھ سفر کرتے ہوئے مصر کی سرزمین پر اترتے ہیں، جہاں اہرام مصر کی تعمیر جاری ہے، دیو ہیکل پتھروں کو انسانی انبوہ کھینچ رہے ،بوجھ کھینچنے سے جن کی زبانیں باہر لٹکی ہوئی اور آنکھیں ابلی پڑی ہیں۔تاریخ کے ان ادوار سے گزرنے کے بعد اب 21ویں صدی کے کچھ اہم علامتی کرداروں سے ملتے ہیں۔یہ ڈھائی ہزار سال پر محیط ناول ہے لیکن ناول نگار نے اس کو صرف 200 صفحات کے اندر مکمل کر دیا ہے۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے بیانیے میں کتنا اختصار ہے اور اختصار تو بجائے خود ہی ایک معجز بیانی ہے۔اس ناول میں ڈاکٹر وحید احمد کی تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ناول کا بنیادی کردار زینو، ارسطو اور سکندر کے دور سے ہوتا ہوا اکیسویں صدی تک آتا ہے۔ کس طرح سے مصنف ایک کردار کو ڈھائی ہزار سال کا سفر کرواتا ہے، یہ چیز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔زینو کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آپ عالمی مالیاتی اداروں کے ایک علامتی کردار ماہر معیشت پال سے ملتے ہیں۔ زینو اور پال کے درمیان ہونے والا مکالمہ دراصل اس کتاب کا وہ بنیادی خیال ہے، جس کے گرد کہانی بنی گئی ہے اور یہی جدید معاشرت کے مقابل یہی وہ اینٹی تھیسز ہے جو ڈاکٹر وحید احمد نے ناول کی صورت پیش کیا ہے۔ ناول کا بنیادی کردار زینو اعلی انسانی اقدار اور رویوں سے لبریز ایک تصوراتی کردار ہے جو ڈاکٹر وحید احمد کے ذہن کی پیداوار ہے۔ جدید طرز معاشرت، معاشیات کے عالمی اداروں کا تیسری دنیا کے لوگوں کی زندگیوں پر کنٹرول،صنعتی انقلاب اور اس سے پیدا ہونے والے کنزیومرزم اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی لامحدود ہوس اور اس تماشاگری میں بے توقیر ہوتا ہوا ،انسان بنیادی طور پر ناول کا موضوع ہے۔ جدید ترقی کی اندھی دوڑ نے فطرت کے توازن میں بگاڑ پیدا کیا ،جس نے ماحولیات کے سنگین مسائل پیدا کیے یوں ترقی معکوس کا یہ سارا سفر زمین پر بستے ہوئے انسان کے لیے رائے گانی اور خسارے کا سفر ثابت ہوا۔زینو جب جدید دور کے ایک خوبصورت جزیرے پر آنکھیں کھولتا ہے تو اسے سمندر میلا، مچھلیاں اداس، درخت مرجھائے اور پتوں پر راکھ کی باریک تہیں پڑی نظر آتی ہیں۔ وہ کہتا ہے پرندوں کے حلق میں دھواں جم گیا ہے اور اس کثافت بھری فضا میں کوئل کی آواز باز گشت نہیں بنتی بلکہ پہاڑوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے۔ یہ ناول جدید طرز معاشرت ،دنیا کو غلام بنانے والا عالمی معاشیاتی نظام اور منافع کو خدا بنا لینے والی۔ جدید دنیا پر کڑی تنقید ہے۔وحید احمد نے جو نقطہ نظر زینو میں بیان کیا ہے۔اسی فکر اور نظریے کا تسلسل ان کی نظموں کی سطروں سے بھی جھلکتا ہے ،جو اس بات کی دلیل ہے کی وحید احمد عصری شعور سے لبریز تخلیق کارہیں بلاشبہ جو تخلیق کار politics اورrealpolitik کے بین فرق کو سمجھتا ہو ، معیشت کی عالمی منڈیوں میں انسانیت کے گرتے بھاؤ سے واقف ہو ، جو تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک کردار بن سفر در سفر خود کو گرد کرتا ہو، جو جدید صنعتی انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والے ہمہ جہت زوال سے واقف ہو اور کنزیومرزم کی اندھی دوڑ میں فروخت ہوتی انسانیت اور بے توقیر ہوتے ہوئے انسان کے کرب سے آگاہ ہو ،وہی زینو جیسا شاہکار ناول تخلیق سکتا ہے۔ڈاکٹر وحید احمد نے زینو لکھ کر اردو ادب کو ثروت مند کیا ہے۔بظاہر ناول کا موضوع عام قاری کے لیے ادق اور گھمبیر ہے لیکن اس گھمبیر موضوع کو وحید احمد کی ریشمی نثر نے چار چاند لگا دیے ہیں۔اس ناول میں لفظوں کی جادوگری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر وحید احمد ایک قادر الکلام تخلیق کار ہیں۔ وہ بجھے ہوئے لفظوں کو اپنے تخیل کے الاؤ سے چراغ بنادینے پر قادر ہیں اور زینو کی تخلیقی نثر چراغوں کا ایک ایسا ہی سلسلہ ہے جس کی سرشاری کو بیان نہیں کیا جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔