ہرسال ماہ اگست جہاں ہمیں تقسیم برصغیراورقیام پاکستان کی تاریخ یاددلاتاہے وہیں اس خطے میں انگریز سامراج کے بعد ہندو رام راج کے ظلم وبربریت اوراس کے سیاہ کارناموںکوطشت از بام کرتا ہے کہ کس طرح ہندو رام راج نے شب وخون مارکر ریاست جموں وکشمیر کے غالب حصے پرجبری قبضہ کر کے ملت اسلامیہ کشمیر کے ارمانوں کاخون کیا اورکس طرح اس نے پاکستان کی شہہ رگ کوایسے دبوچ لیاکہ آج تک اسے اس کے خونین پنجوں سے چھڑایا نہیں جاسکا۔ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے شمال میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 84471 مربع میل ہے۔ تقسیم ہند کے وقت یہ اس علاقے کی سب سے بڑی آزاد ریاست تھی جس پرانگریز کا کوئی حکم صادر نہیں ہوتا تھااوریہ ریاست اس وقت بھی قائم ودائم تھی کہ جب ایک آزاد بھارت یا پھر آزاد پاکستان کاکوئی وجود نہیں تھا۔تقسیم برصغیر کے طے شدہ فارمولے کے تحت اس آزاد ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا تھاکیونکہ یہ ایک مسلم ریاست تھی جس میں 95 فیصد مسلمان بستے تھے۔ قدرتی طور پراس ریاست کے بڑے دریائوں، دریائے سندھ، جہلم ، چناب کا رخ پاکستان کی طرف تھا۔ دینی ،مذہبی ، ثقافتی اور جغرافیائی ،غرض ہر لحاظ سے کشمیر کی پاکستان کے ساتھ ایک وحدت بنتی ہے لیکن ہندو رام راج نے اس ریاست کو پاکستان سے ملنے نہیں دیااوراس پرغاصبانہ تسلط جمایا۔ 1848ء میں انگریزوں نے اس ریاست کو سردار گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچا۔ اس معاہدے کے لیے گفت و شنید لارنس نے کی تھی۔ ریاست جموںو کشمیر میں ڈوگرہ راج ظالمانہ راج کی انتہا تھا اور اس میں گائے کے ذبح کرنے والے کے لیے کڑی سزامقرر تھی۔ جوں جوں تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کے امکانات واضح ہوتے جا رہے تھے ۔ اسی رفتار سے کشمیر کے خلاف سازش کے تانے بانے بننے کا عمل جاری تھا ۔ کشمیر کے بارے میں کانگریسی قیادت کی بد نیتی بہت پہلے سے ہی عیاں تھی ۔ جب کانگریس نے شیخ عبد اللہ کو اپنے فریب میں مبتلا کر دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے برصغیر کی سیاست اس انداز سے کشمیر پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی اور کشمیر اپنی الگ شناخت اور تشخص رکھنے والی ریاست کے طورپر مشہور تھا۔ جہاں گوکہ ڈوگرہ خاندان کی صورت میں شخصی اور خاندانی راج تھا لیکن کشمیر کا برصغیر کی سیاست اور حالات سے زیادہ تعلق نہ تھا۔ لیکن جب شیخ عبد اللہ کشمیر کے قد آور لیڈر بنے اور کشمیر میں رائے شماری کی تحریک آگے بڑھنے لگی اور یہ تحریک شیخ عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کی قیادت میں مسلم کانفرنس کے بینر تلے آگے بڑھ رہی تھی تو کانگریسی راہنمائوں کی بد نیتی عیاں ہوتی چلی گئی اور کانگریس نے کشمیر کی قد آور قیادت کو ہائی جیک کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ شیخ عبد اللہ کانگریسی سازش کے نشانے پر تھے بالآخر کانگریس کو اپنے مشن میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ شیخ عبد اللہ نے نیشنلزم اور سوشلزم کو اپناتے ہوئے مسلم کانفرنس میں نظریاتی تضاد اور دراڑ پیدا کرتے ہوئے نہ صرف مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا بلکہ محاذ رائے شماری کے مطالبے اور اس حوالے سے تگ و دو کرنے کو’’ آوارہ گردی‘‘ قرار دیکر نیشنل کانفرنس کو کشمیر میں کانگریس کی ذیلی تنظیم بنا دیا اسی کروٹ کے ساتھ شیخ عبد اللہ کشمیری گاندھی بن گیا۔ حالانکہ کشمیر یوں نے مکانوں کی چھتوں اور ہائوس بوٹوںاور دفاتر پر پاکستانی پرچم لہرائے تھے۔ کشمیر کی لیڈر شپ کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کے ساتھ ہی کانگریسی لیڈر شپ نے مہاراجہ کشمیر پر دبائو بڑھانا شروع کیا۔مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کا نگریس کی قیادت سے شدید اختلاف رکھتا تھا اور کانگریس کی نسبت مسلم لیگی قیادت کے ساتھ اسکے قریبی تعلقات تھے۔مہاراجہ کے ارد گرد بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو یہ ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ کانگریس کشمیریوں کو یوں اونے پونے خریدے جن میں مہاراجہ کے وزیراعظم رام چند کا نام بھی شامل ہے ۔تقسیم بر صغیر کے اوائل سے ہی کانگریس کشمیر کے بارے میں اپنے ایک ایجنڈے پر کام کر رہی تھی۔ پروگرام یہ تھا کہ کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے لیے مہاراجہ سے ساز باز کر لی جائے تاہم یہ منصوبہ خفیہ رکھا جائے۔ کھلم کھلا الحاق اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ حیدر آباد پر قبضہ نہ کر لیا جائے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اور کانگریس کے درمیان ضلع گورداسپور کے بارے میں پہلے سے ہی ایک سازش پنپ چکی تھی۔ 3جون1947ء کے منصوبے کے اعلان کے فوراً بعد ہی مائونٹ بیٹن نے کشمیر کا دورہ کیا اور مہاراجہ سے کہا کہ وہ فی الوقت کسی ملک سے بھی الحاق کا فیصلہ نہ کرے بلکہ اپنے عوام کی رائے معلوم کرے پھر فیصلہ کرے۔ اس دوران قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر جانے کا ارادہ کیا لیکن مائونٹ بیٹن نے آپ کے دورہ پر اعتراض کر دیا۔ چنانچہ آپ نے دورہ منسوخ کر دیا۔ جبکہ یکم اگست 1947 ء کو گاندھی نے کشمیر کا دورہ کیا اور وائسرائے نے اس دورہ کو مکمل طور پر معاونت کی۔ اس دوران کانگریسی قیادت نے مہاراجہ کو عبد اللہ کارڈ کے ذریعے بلیک میل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک بھارت میں قائم کانگریسی حکومت نے27 اکتوبر 1947ء کوسری نگر کے ایئرپورٹ پر اپنی فوج اتاردی اوریوں نامکمل تقسیم برصغیرکاملبہ ریاست جموں وکشمیرپرگرایاگیا۔ وہ دن اورآج کادن خطہ کشمیر بھارتی مقبوضہ علاقہ قرارپایا۔اگرچہ گزشتہ 75 برسوں سے ملت اسلامیہ کشمیر بھارتی چنگل سے نجات اورآزادی کے لئے برسر پیکار ہے اورگزشتہ 32 برسوںسے وہ اپنی آزادی کے لئے بے پناہ جانی ومالی قربانیاں پیش کررہے ہیں۔