بنگلہ دیش میں 2009سے عوامی لیگ (BAL) برسر اقتدار ہے، شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم ہیں۔ جبکہ وہاں کی مقبول جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود اپوزیشن میں ہے، اس جماعت کی چیئرپرسن خالدہ ضیا ہیں۔ یعنی اعدادو شمار کے مطابق بی این پی کی مقبولیت کا گراف42فیصد، جبکہ عوامی لیگ کا گراف 24فیصد ہے۔ عوامی لیگ نے ان 14سالوں میں ہر حربہ استعمال کیا کہ بی این پی کی مقبولیت کم ہو جائے مگر وہ ہر گزرتے دن بڑھتی گئی اور اب جبکہ اگلا الیکشن جنوری2024ء میں طے ہے تو اس وقت بھی بی اے ایل ہر طریقہ آزما رہی ہے کہ وہ کسی طرح یا تو الیکشن کے التوا کی طرف جائے یا کسی بھی طرح بی این پی کے رہنمائوں کی کردار کشی کر کے اُنہیں غیر مقبول کیا جائے۔ لیکن بظاہر وہ ایسا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک ٹولہ پچھلے سال پاکستان پر مسلط ہوا کہ شاید تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو جائے ، اس دوران اس جماعت کی قیادت پر سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے مگر مقبولیت ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اور اب جبکہ ہر ٹوٹکہ آزمایہ جا چکا ہے تو الیکشن کو طول دینے کی مکمل تیاری کی جا چکی ہیں۔ جس کے مطابق الیکشن کم از کم ایک سال تک تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کسی کا مہرہ بنا ہوا ہے ؟ تو اس کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ حالیہ مہینوں میں ہی دیکھ لیں کہ رواں ماہ 8 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ 90 دن کے اندر اس کے انتخابات کرانا آئین کا تقاضا تھے۔ لیکن مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دیدی جس کا گزٹ نوٹی فکیشن بھی ہوگیا۔ الیکشن کمیشن نے اسے آئینی جواز بنا کر اعلان کردیا کہ اب پہلے انتخابی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ الیکشن اسکے بعد ہونگے۔ عمومی توقع تھی کہ حلقہ بندیوں میں چار ماہ لگ جائینگے۔ کچھ دوسری تیاریاں بھی کرنی ہیں اسلئے الیکشن فروری 2024 ء میں ہوں گے لیکن سیاسی دانشوروں نے حساب لگایا کہ انتخابات تو مئی 2024ء سے پہلے ہو ہی نہیں سکتے۔حالانکہ جب سابق حکومت میں شامل تمام جماعتوں کواس بات کا اندازہ تھا تو مردم شماری کے عمل کو 4 ماہ پہلے مکمل کیوں نہ کیا گیا،جاتے جاتے مردم شماری کے نتائج تسلیم کر کے تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کو طول دینے کے دروازے خود کھول دیئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بروقت انتخابات کو مشکل بنانے کیلئے قانونی اور آئینی الجھنیں دانستہ طور پر پیدا گئی تھیں، تاخیر کی بڑی ذمہ داری پی ایم ایل این پر جاتی ہے جس کی قیادت نے بروقت مردم شماری کا عمل مکمل نہ کیا، اس کے بعد مردم شماری اور تازہ حد بندی کو انتخابات میں تاخیر کی وجوہات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، مئی میں 2023 کی مردم شماری کیلئے عارضی نتائج تیار تھے،اگر پی ڈی ایم حکومت نے تمام فریقوں کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہوتا اور کئی ماہ قبل نتائج کے بارے میں سی سی آئی کو مطلع کرنے کیلئے اجلاس بلایا ہوتا تو بروقت انتخابات کی راہ ہموار ہو چکی ہوتی لیکن لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان کی مقبولیت سے خائف تھی، اسے یقین نہیں تھا کہ عوام اسے ووٹ دیں گے اور وہ اس انتظار میں تھی کہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کروایا جائے لیکن کیا یہ کوئی اچھی اور جمہوری روایت ہے ؟ خیر یہ بحث ابھی جاری تھی کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لئے سیاسی پارٹیوں کو مشاورت کی دعوت دے دی۔ یہ سلسلہ جمعرات کو شروع ہونا قرار پایا۔ اس سے ایک روز قبل صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا کہ الیکشن کی تاریخ طے کرنی ہے جو میری ذمہ داری ہے۔ آج یا کل مشاورت کے لئے تشریف لے آئیں۔ الیکشن کمیشن نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا تاکہ آئینی و قانونی نکات کا جائزہ لے ،فیصلہ کیا گیاکہ صدر سے ملنے نہیں جانا۔ لیکن بادی النظر میں چیف الیکشن کمشنر کو اخلاقاََ صدر سے مل لینا چاہیے تھا ، یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے باپ بیٹا ملنا چاہ رہے ہیں، اور بیٹا اس میں پہلے اپنا فائدہ سوچ رہا ہے۔ یہ تو ہماری روایات کے بھی خلاف ہے کہ صدر پاکستان کسی کو بلا رہے ہیں اور اُن کے بچے ملنے سے انکار کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں جتنی آئین شکنی، اور جتنی روایات کو اس دور میں کچلا گیا، آج تک کسی نے ایسا نہ کیا۔ لیکن اگر کمیشن نے الیکشن کی تاریخ نہ دینے کی ٹھان لی ہو تو پھر کوئی کیا کر سکتا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہو سکتا ہے ، ان فیصلوں کو ہم اگلے پچاس سال تک بھگتتے رہیں۔ لہٰذا اگر ان حالات سے جان چھڑانی ہے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانا ہے تو میرے خیال میں اس وقت حالات یہ ہو چکے ہیں کہ ایک توہین صدر کا بھی بل آنا چاہیے، کیوں کہ اس وقت سبھی اداروں کی توہین کے بل آچکے ہیں، سبھی اداروں نے اپنے تحفظ کے بل بنا رکھے ہیں، لیکن صدر کی توہین کا بل نہیں آیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بچوں نے اپنے اپنے تحفظ کے بل بنا لیے ہیں اور باپ کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اگر 90دن میں الیکشن نہیں ہوتے تو وزیر اعظم سمیت تمام لوگوں کو مستعفی ہوجانا چاہئے کیونکہ وہ غیر منتخب لوگ ہیں، ایک نئی منتخب حکومت ہی عوام پر حکمرانی کا حق رکھتی ہے نہ کہ غیر منتخب۔حقیقت اگرچہ یہ ہے کہ فروری سے پہلے انتخابات کا ہونا اب ممکن نہیں رہا، اس کے باوجود اس تاریخ سے آگے کوئی تاخیر ایک نئے آئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے ، کیونکہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں ، منتخب اسمبلیوں کے بغیر ، سینیٹ کا انتخاب ممکن نہیں ہوگا،آئین کو نظرانداز تو پہلے ہی کے پی اور پنجاب کے معاملے میں کیا جاچکا ہے وہ مکمل غیر جمہوری اقدام تھا ، نگراں حکومت کو الیکشن میں تاخیر کم سے کم کرنا چاہئے،جبکہ ای سی پی کو صدر سے مشورہ کر کے عام انتخابات کی ایک حتمی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ غیر یقینی صورتحال کے باعث معیشت مزید کمزور نہ ہو، امید ہے ای سی پی دسمبر یا جنوری کے پہلے ہفتے میں انتخابات کا اعلان کردے گا اور نئی حلقہ بندیوں کے عمل کو فی الفور مکمل کر لیا جائے گا۔کیوں کہ الیکشن کمیشن کا اس وقت بہت اہم کردار ہو جاتا ہے کہ وہ فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے، جب ملک معاشی بھنور میں پھنسا ہوا ہو۔ قصہ مختصر کہ اس وقت معذرت کے ساتھ پاکستان کے نظام کو دیکھ کر بالکل ایسے لگتا ہے جیسے ہم کسی پاگل خانے میں رہ رہے ہوں اور کوئی ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہ ہو، پاگل خانے سے برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے ساتھ ہوا ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک بارچرچل شہر کے پاگل خانے کا دورہ کررہے تھے کہ اس دوران انہوں نے ایک پاگل سے پوچھا: کیا نام ہے آپ کا؟ اس پر وہ پاگل بولا: پہلے آپ بتائیے کہ آپ کون ہیں؟چرچل نے کہا’’میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں‘‘ جس پر پاگل نے جواب دیا کہ میں جب یہاں آیا تھا تو میں بھی لوگوں کو یہی بتاتا تھا…! لہٰذاپاکستان کے حالات بھی آجکل اس واقعہ سے مختلف نہیں ہیں۔ اور رہی بات الیکشن کمیشن کی تو وہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے، کٹ کر کیسے رہ سکتا ہے!