جنوبی پنجاب کے شعرا کرام ایک تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔ ان کے کچھ مطالبات ہیں جن کو منوانے کے لیے ان کا احتجاج کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرنے کا اردہ ہے ۔ بہاولپور سے ایک معر وف شاعر، دیوانہ بلوچ، کی قیادت میں ملتان گیا ہے جہاں انہوں نے مختلف قوم پرست تنظیموں سے حمایت کے لیے رابطے کیے ہیں اور شنید یہ ہے کہ انہیں کافی پزیرائی بھی ملی ہے۔ اس مہم جوئی کا مقصد یہ ہے کہ وسیب کے شعرا کی حوصلہ افزائی کے لیے پنجابی ادبی بورڈ کے طرز پر سرائیکی ادبی بورڈ بنایا جائے۔ شاعروں اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے جہاں لاہور میں پلاک موجود ہے ، وہیں پر جنوبی پنجاب کے لیے سلاک بنایا جائے۔ یعنی جب سرائیکی کو سرکاری سطح پر ایک زبان تسلیم کرہی لیا گیا ہے تو اس زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے ادارے بھی قائم ہونے چاہیں۔ جہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایم اے اور پی ایچ ڈی تک کلاسیں ہورہی ہیں تو شاعروں اور ادیبوں کی بھی تو حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔ اب اس کام میں دیر ہورہی ہے تو مسائل ہیں اور شاعروں میں بے چینی بھی ہے۔ ایک تو امدادی رقوم اور ایوارڈز کے حصول کے لئے لابنگ مسئلہ ہے کہ فیصلہ سازی کے لیے نامزد لوگ لازمی نہیں کہ جنوبی پنجاب میں ہونے والے ادبی کاوشوں کے معیار کا تعین کرسکیں، دوسرے سفری مشکلات بھی مسئلہ ہیں۔ لاہورکی طرف سفر کرنا اور وہ بھی اپنے حق کے حصول کے لیے اور پھر پتہ بھی نہیںکہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ نئے صوبے کے قیام کے تناظر میں ہونے والی بحث اور سیاسی پارٹیوں کی کج ادائیوں کی وجہ سے قوم پرست تنظیموں کا مزاج اب ایسا بگڑا ہے کہ وہ خطے کے شعرا اور ادیبوں کو پلاک سے ملنے والے ایوارڈز کے حصول میں آڑے آرہی ہیں۔ جہانگیر مخلص کے تو ہاتھوں سے یہ ایوارڈ چھینا گیا۔ رفعت عباس نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انہوں نے سرائیکی میں شاعری کی ہے۔ چونکہ انہوں نے پنجابی زبان کی ترویج میں کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ، اسلئے وہ پلاک سے کسی قسم کا ایوارڈ لینے کے روادار نہیں۔ سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے جنوبی پنجاب کے شاعروں کی احتجاجی تحریک میں میری دلچسپی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک ، مطالبات کے حق میں کیا جانے والا احتجاج مشاعروں کی صورت میں ہوگا اور اس میں قوم پرست تنظیمیں شرکت کریں گی۔ دوسرا شاعروں کا لب و لہجہ اگلے عام انتخابات پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ طاقت کے مراکزسے دورجاگیردارانہ اور نیم قبائلی معاشرے میں شاعر ہی تو لوگوں کے فطری حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ جب سے ریاست بہاولپور ختم ہوئی ہے اور جاگیرداروں نے اپنے آشیانے لاہور بنا لیے ہیں، علم و ادب اور موسیقی کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں ادب اور ثقافت کے لیے ادارے بنائے لیکن ان کے ساتھ ہی زبان و ثقافت کی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کا خواب بھی نوجوانوں کی آنکھوں میں سجا گئی۔ سالہا سال اسی بنیاد پر ووٹ لیتی رہی لیکن پنجاب پر حکمرانی کا اسے نہ موقع ملا اور نہ ہی صوبہ بن سکا۔ دوہزار دس میں بالآخر صوبائی خود مختاری پر راضی ہوکر اس نے جنوبی پنجاب سے اپنے کیمپ ہی اکھاڑ لیے اور سندھ کی حد تک جا محدود ہوگئی۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں سرائیکی کو کالج سطح پر پڑھائے جانے کی منظوری دی اور یوں اس مضمون میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھلے۔ یہ پارٹی صوبے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے پر بھی راضی ہوگئی تھی اور پنجاب اسمبلی سے قرارداد بھی منظور کرالی تھی لیکن پیپلز پارٹی اس معاملے میں آڑے آگئی۔ جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بھی اپنے منشور میں شامل کیا ہے تو قوم پرستی ایک نئی جہت میں نکل پڑی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو زبان و ثقافت کی بنیاد پر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں دوسری طرف وہ جنکا اصرار ہے کہ سرائیکی جتنے وسیع و عریض خطے میں بولی جاتی ہے صرف ایک صوبہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتا ، اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی اصل مقصد ہے۔ تحریک موجود ہے اور قومی سطح کی پارٹیاں بھی اس کی ضرورت محسوس کررہی ہیں ، جتنا جلدی ممکن ہو بن جائے تو بہتر ہے تاکہ تعمیر وترقی کا عمل شروع ہو اور خطے کی محرومیوں کے خاتمے کی کوئی تدبیر ہو۔ شاعر کسی بھی معاشرے کے ضمیر کی آواز ہوتا ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔لیکن پچھلے چندسال سے شاعر کو سیاست کے گھن چکر میں الجھا دیا گیا ہے۔ پنجاب کے قائم کردہ ادبی اداروں سے صرف ایوارڈز لینے کا معاملہ پہ نہیں بلکہ اس کی فکر اور سوچ کو بھی سیاسی ناپختگی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش ہوئی ہے۔ اب تک شاعر نئے قومی صوبے کی تحریک کا حصہ تھا لیکن مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے موقف سامنے آنے اور پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر صوبہ بنانے کی مہم سے جہاں قوم پرست اپنی فکری اساس کو از سر نو ترتیب دے ر ہے ہیں، وہاں شاعر اپنی حریتِ فکر کے دفاع کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔ حالیہ مہم جوئی ، جس میں خطہ روہی کے خود دار اور باکمال شعرا پیش پیش ہیں، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے مجوزہ دورہ بہاولپور کے تناظر، ہورہی ہے جنہوں نے سب سکریٹریٹ کا افتتاح کرنا ہے۔ اب جبکہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی فنڈ علیٰحدہ کردیا گیا ہے ، سب سے پہلا کام شاعروں اور ادیبوں کی دلجوئی کا کرنے کا ہونا چاہیے۔