بھارت میںدوٹوک انداز میں ایسے مباحث ہورہے ہیں کہ واپی مسجد، تاج محل، لال قلعہ اور جامع مسجد ہندو سٹرکچر پرتعمیر کی گئیںہیں،انہیں ہرحال میںگراکر یہاں اسی طرح مند ربنائے جائیں گے جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے بعدمسجد کے مقام پر رام مندرتعمیر ہورہاہے۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اور بی جے پی کا کہنا ہے کہ ماضی کے مسلم حکمرانوں نے انڈیا کی تقربیاً 30 ہزار مساجد، مقبرے اور قلعے وغیرہ ہندو مندروں کو توڑ کر تعمیر کیے تھے اور وہ صرف تین اہم مساجد کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر مسلمان ان عبادت گاہوں سے دستبردار ہو جائیں تو وہ باقی عمارتوں پر اپنا دعویٰ ترک کر دیں گے۔ان تین عبادت گاہوں میں بابری مسجد کے علاوہ بنارس کی گیان واپی مسجد جو بگھوان شیو کے ایک بڑے مندر کاشی وشوناتھ سے متصل ہے، اور متھرا کی عیدگاہ مسجد شامل ہیں۔ یہ مسجد اور عیدگاہ دونوں ہی مغل بادشاہ اورنگزیب کی تعمیر کی ہوئی تھیں۔ متھرا کی عیدگاہ مسجد کی قبلے کی دیوار بگھوان کرشن جنم بھومی کے مندر سے ملی ہوئی ہیں۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ عید گاہ مسجد کرشن جنم بھوی کی زمین پر بنائی گئی ہے۔دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کھلے عام کہتا ہے کہ مسلمانوں کو ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل پیش کرنا چاہیے۔مطلب یہ ہے جن مساجد پرہندودعوی جتاتے ہیں ان تمام مساجدکو ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیے۔ بابری مسجد کی جگہ اب رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پانچ اگست 2020 کواس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔جس وقت بابری مسجد کو مندر میں بدلنے کی تحریک چل رہی تھی تو اسی وقت یہ نعرہ اچھالا گیا تھا کہ 'یہ تو ایک جھانکی ہے، کاشی،متھرا باقی ہے ۔ بھارتی پارلیمان نے (1991میں Place of Worship Act )کے نام سے ایک قانون منظور کیا تھا جس کی رو سے 1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی اور اس میں کسی کو کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کا حق نہیں ہوگا۔ کہاگیاتھاکہ یہ قانون سے بابری مسجدپرلاگونہیں ہوگا دلیل یہ دی گئی تھی کہ بابری مسجد کا مقدمہ کئی عشروں سے چل رہا ہے اس کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔بعد ازاںانڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ مندر کے حق میں دیا ۔یہ توقع کی جا رہی تھی کہ 1991 کے عبادت گاہ تحفظ ایکٹ کے بعد بابری مسجد جیسا دوسرا تنازعہ پیدا نہیں ہو گا۔لیکن گذشتہ برسوں میں مقامی عدالتوں نے بنارس اور متھرا کی مسجدوں کے بارے ہندو فریقوں کے دعوؤں کی درخواستیں دھڑادھڑ سماعت کے لئے قبول کرلیں۔اس کامطلب یہ ہے کہ انڈیا کے لوگ بے پرواہ ہوکر از خود اپنے ملک کے قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔نرسہمارائو کے زیر قیادت گانگریس دور حکومت میںہندئووں کے ایک بہت بڑے ہجوم جسکی قیادت بی جے پی لیڈرایل کے ایڈوانی اورمرلی منوہر جوشی کررہے تھے ،کے ہاتھوںدسمبر 1992 میں بابری مسجد شہید کردی گئی اوراب گیان واپی مسجد کے معاملے کو بھی نہ صرف ٹھیک ایودھیا کی بابری مسجد جیسی صورتحال کی طرف لے جایاجارہاہے بلکہ ہندو دہشت گردجماعتیں بھارت میں ان گنت مساجد کے مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔ متعدد مساجد میں پوجا پاٹ کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں اور کئی مساجد کے حوالے سے عدالتوں میں مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ تاہم تازہ ترین معاملہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کی تعمیر کردہ بنارس کے گیان واپی مسجد کا ہے۔گیان واپی مسجد جیسے نوعیت کے مقدمے عیدگاہ مسجد کے سلسلے میں متھرا کی مقامی عدالت میں بھی زیر سماعت ہیں۔26 جنوری 2023کوقطب مینار کے بارے میں بھی ہندو فریقوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ وہ قطب مینار کو وہ ’وشنو دھوج‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مینار کے اطراف میں وشنو اور جین مندروں کے ستون اور آثار واضح طور پر موجود ہیں، اس لیے یہ ان کے حوالے کیا جائے۔اسی طرح کچھ درخواستیں تاج محل کے حوالے سے بھی جمع کروائی گئی تھیں۔ ہندو درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ تاج محل دراصل ’تاجو مہالے‘ مندر تھا جس کی مورتیاں وغیرہ توڑ کر ہٹا دی گئیں اور ان کی جگہ یہ عمارت تعمیر کی گئی۔تاہم مقامی عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اب گیان واپی کے فیصلے کے بعد ان دعوؤں کے لیے راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ مہاراشٹر، کرناٹک اور بعض دوسری ریاستوں میں بھی اس طرح کے تنازعات پنپ رہے ہیں۔ بہرکیف!انڈیا کی الہ آباد ہائیکورٹ نے بنارس کی معروف اور تاریخی گیان واپی مسجد کے سائنسی سروے کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔3جولائی 2023جمعرات کوالہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کے مدنظر مسجد کا سائنسی سروے ضروری ہے۔ آرکیالوجیکل سروے کے ماہرین اس مسجد کے در و دیوار اور اس کی بنیادوں اور تعمیرات کا جائزہ لے کر یہ بتائیں گے کہ صدیوں پرانی یہ مسجد کیا کوئی ہندو مندر توڑ کر بنائی گئی تھی یا مندر کے کچھ حصے کی تعمیر نو کر کے اسے مسجد میں بدل دیا گیا تھا یا یہ ابتدا سے ہی ایک مسجد تھی۔قانونی ماہرین کے مطابق ہائیکورٹ کے اِس فیصلے کے بعد متھرا کی عید گاہ، قطب مینار، تاج محل اور بہت سی دیگر مسلم عمارتوں، عبادت گاہوں اور مقبروں پر ہندوؤں کے دعوؤں کا قانونی راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ گیان واپی مسجد کے سائنسی بنیادور پر سروے کا فیصلہ بنارس کی ضلعی عدالت نے سُنایا تھا۔ مسجد کی انتظامیہ نے اس فیصلے کو الہ آباد ہائیکورث میں چیلنج کیا تھا۔شمالی ریاست اتر پردیش میں بیسیوںمساجد ایسی ہیں، جن کے بارے میں ہندوؤں کا یہ ماننا ہے کہ انہیں مندروں کو منہدم کر کے ان کی جگہ تعمیر کیا گیا۔ گیانواپی مسجد بھی انہی میں سے ایک ہے۔ زمین کی ملکیت بھارت میں مسلم اور ہندو برادریوں کے مابین ایک بڑا مسئلہ ہے۔