ہمارا تعلق اس نسل سے ہے کہ ریڈیو جن کا دوست، استاد، کھلونا، بہلاوا، مشیر، محبوب سب کچھ ہوا کرتا تھا۔ ہمارا تعلق اس نسل سے بھی ہے، جنھوں نے ماہ پارہ زیدی کو اپنی آنکھوں سے ماہ پارہ صفدر بنتے نہ صرف دیکھا بلکہ برداشت بھی کیا۔ ماہ پارہ سے ہمارا ابتدائی تعارف اس زمانے میں ہوا جب کوئی خوب صورت چہرہ دیکھ کے نسیم حجازی کے ناولوں کی ہیروئنوں کی طرح دل میں خوشگوار دھڑکنوں کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ اَسّی کی دہائی میں جب ٹی وی نے آواز کو تصویر کا قالب عطا کیا تو ڈراموں میں شہناز شیخ، مرینہ خان، لیلیٰ زبیری، نشاط فاطمہ اور فضیلہ قاضی جیسی زمینی بجلیاں ہی کیا کم تھیں کہ نو بجے کا خبرنامہ بھی ہم پہ قیامت بن کے ٹوٹا۔ ہماری نسل کے کتنے ہی نوجوان تھے کہ یہ پہلی ہی نظر میں جن کہ پُتلیوں میں گھس کے بیٹھ گئی۔ اس پہ ستم یہ کہ ہماری جملہ کیفیات سے بے خبر، یہ باخبر خاتون، چہرے پہ سنجیدگی اور سر پہ صوفیانہ رنگ کا دوپٹہ اوڑھے، خالد حمید یا اظہر لودھی کے پہلو میں بیٹھی اتنے پکے منھ اور بے نیازی سے کچی کچی خبریں پڑھ رہی ہوتی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میرزا غالب نے ایسی ہی کسی صورتِ حال میں کہا تھا: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میںریڈیو ہماری جذباتی تسکین کا واحد ذریعہ تھا۔ ڈرامے،گیت، غزلیں، فلمی پروگرام، کرکٹ کمنٹری، ہمارا رات دن کا ایجنڈا تھا، اس میں خبروں کا اضافہ محض اس کے نام کی وجہ سے ہوا۔ اَسّی کی دہائی تازہ تازہ پھوٹ رہی تھی، ہمیں بھی کالج اور سولھواں آن لگا تھا۔ یعنی جذبات کے ننھے ننھے پر نکلنا شروع ہو چکے تھے۔ شدید مطالعے کی عادت نے الفاظ اور اشعار پر کان کھڑے ہونا سکھا دیا تھا۔ ایک دن جیسے ہی ریڈیو کی شش ونتی ٹوں ٹوں کے بعد ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ ماہ پارہ زیدی سے خبریں سنیے‘‘ … نام خوبصورت، نیا اور چونکا دینے والا تھا، آواز مترنم اور سریلی، ہماری کیا مجال کہ نہ سنتے!! لغت تو دستیاب نہ تھی، ایک نیم پڑھے لکھے چچا نما شخص سے ’ماہ پارہ‘ کے معنی پوچھے: ’چاند کا ٹکڑا‘… اُنھوں نے ہمارے کانوں میں رس گھولا۔ دھڑکنوں میں ہلچل سی ہوئی۔ شام کو آل انڈیا ریڈیو پر کشور کمار نے جلتی پر تیل کا کام کیا: میرے سامنے والی کھڑکی میں اِک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے!!! پھر کیا تھا ہمیں پاکستان کے حالات سے دلچسپی ہونے لگی۔ خاص خاص خبروں سے لے کے موسم کا حال تک مزے دار لگنے لگے۔ کچھ عرصے بعد ماموں جان مونجی بیچ کر سانیو SANYO کا ٹانگوں والا ٹی وی لے آئے، جس کی سکرین کے سامنے شٹر لگا ہوتا تھا۔ جب لوگوں کو علم ہوا کہ اس ’ریڈوے‘ میں آواز کے ساتھ تصویر بھی آتی ہے تو یہ معجزہ دیکھنے کے لیے پورا گاؤں اُمڈ پڑا۔ شام سے پہلے ہی چونترے پر پانی ترونک کر ٹی وی صحن میں رکھ دیاجاتا۔ آٹھ بجے ولا ڈراما دیکھ کے ٹی وی بند ہو جاتا۔ ایک روز نو بجے سامنے پڑے ٹی وی کی کھڑکی کھولی تو کشور کمار کا کہا سچ نکلا۔ تازہ تازہ ممتاز مفتی کو پڑھا تھا، ایک جگہ انھوں نے لکھا تھا کہ جب کوئی طرح دار حسینہ سامنے آئے تو دل کے اندر ٹِک ٹِک ہونے لگتی ہے اور اگر وہ حسینہ بانکی نار بھی ہو تو دل ٹٹاؤں ٹٹاؤں کرنے لگتا ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، حکیم جی بتایا کرتے ہیں کہ میڈیا کی حسینہ تو نوجوان نسل کی اجتماعی محبوبہ ہوتی ہے۔ مدھو بالا کی اداؤں، مادھوری کی مسکراہٹ، زیبا بختیار کی سندرتا، شبنم کی سسکی اور ایشوریا رائے کے کے ٹھمکے پر ہر صاحبِ دل کا پورا پورا حق ہے۔ پھر ایک دن اسی ستم پرور سکرین پر ماہ پارہ زیدی کی جگہ ماہ پارہ صفدر کا نام اُبھرا۔ یہ تو نہیں پتہ کہ یہ ایک لفظ کتنے دلوں پر کتنے دنوں تک بجلی بن کر گرتا رہا لیکن اتنا جانتے ہیں کہ اَسّی اور نوے کی دہائی کے کتنے ہی نوجوان فیض احمد فیض کی نظم ’رقیب سے‘ صفدر ہمدانی کو ذہن میں رکھ کر پڑھا کرتے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فیض کا رقیب بھی سیالکوٹ کا ایک سرکس اونر تھا، جس نے ان کی پہلی محبوبہ ’سعادت‘ سے دولت کی بنا پر شادی کی سعادت حاصل کی۔ ہم نے تو اگلے ہی دن، دل اور دل جلے ہم عمر دوستوں کو سمجھایا کہ یارو! اچھا ہی ہوا، ویسے بھی ہماری اور اس کی عمروں میں اتنا فرق ہے کہ وہ قریب بھی ہوتی تو چھوٹی آنٹی یا بڑی باجی کا رشتہ ہی قائم ہو سکتا تھا۔ دوستو! ہمارا اس کھِلے کھِلے چہرے اور سِلے سِلے ہونٹوں والی لڑکی سے کیا لینا دینا جو ٹی وی پہ بھی گن گن کے لفظ بولتی ہے، گھر میں تو اسے گونگی کہتے ہوں گے۔ آنکھیں اگرچہ اچھی ہیں لیکن کیا ہم نے تمام اچھی آنکھوں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ جسے ہم نے آج تک مسکراتے نہیں دیکھا، اسے مسکروانے کا فن کیسے آتا ہوگا؟ وہی جگجیت سنگھ والی تسلّیاں: آج پھر دل نے اِک تمنا کی آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا جب اپنے جملہ مؤقف زیادہ کارگر ہوتے دکھائی نہ دیے اور احباب کی آنکھوں کے خشک آنسو بھی صاف دکھائی دینے لگے تو اِبنِ اِنشا کا سہارا لیا: چاند کسی کا ہو نہیں سکتا چاند کسی کا ہوتا چاند کیلئے ضد نہیں کرتے اے میرے اچھے انشا چاند! ہم اور ہمارے بعض دوستوں کو تو اِبنِ انشا کے اِس شعر سے مکمل آرام آ گیا اور ہم اُردو لٹریچر کے ساتھ بی اے کر کے اپنے اپنے حصے کی ماہ پارہ تلاش کرنے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں چلے آئے۔ آپ جانتے ہیں کہ اورینٹل کالج ایک ایسی طلسماتی بستی ہے جس کی بابت ڈاکٹر سید عبداللہ نے مدتوں پہلے کہہ رکھا ہے کہ ’یہ لڑکیوں کا کالج ہے، جہاں ہر سال اتفاق سے چند لڑکے بھی داخلہ لے لیتے ہیں۔‘ اگر ہمیں ماضی کے حادثے سے کامل آرام نہ آ چکا ہوتا اور ہم شدید قسم کے زنانہ اورینٹل میں ’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘ والی تگ و دَو میں مصروف نہ ہو گئے ہوتے تو اسی اولڈ کیمپس کے آس پاس انارکلی، بانو بازار، نیلا گنبد، مال روڈ، مین لائبریری، فائن آرٹس کیفے، کیپری، کبانہ، چینیز لنچ ہوم، ناصر باغ، لارنس گارڈن، شملہ پہاڑی، پریس کلب میں ، اس قتّالہ کے قدموں اور قسموںکے کئی نشانات تلاش کیے جا سکتے تھے۔ 1989-90ء ایف جی کالج سیالکوٹ جیسے شہرِ محبت میں ہماری لیکچرشپ ہو گئی۔ بڑی باجی بی بی سی کو پیاری ہوئی اور ہم سیالکوٹ سے کمالیہ، شیخوپورہ سے ہوتے ہواتے، ایف سی کالج لاہور آ گئے۔ ایف جی سے ایف سی تک آتے آتے زندگی نارمل ٹریک پہ رواں ہو گئی کہ ایک دن ایک اجنبی نمبر سے کال آئی۔ ’’ ڈاکٹر اشفاق سپیکنگ!‘‘ ’’جی فرمائیے!‘‘ ’’مَیں پروفیسر زریں حبیب بول رہی ہوں، ماہ پارہ صفدر کی بڑی بہن… عظمیٰ مسعود نے آپ کا نمبر دیا ہے۔ آپ سے کچھ ضروری مشاورت درکار ہے… لیجیے ماہ پارہ سے بات کیجیے!!!!!!!‘‘ جانے ایک دم کیوں ذہن میں محسن نقوی کا یہ مصرع گونجا: ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سُرخرو کر کے (جاری ہے)